شمارہ نمبر 26

مختلف شہروں یا علاقوں کے نام بڑے دلچسپ اور کئی لوگوں کیلئے حیران کن ہوتے ہیں اور ان ناموں کے پیچھے پوری داستان چھپی ہوتی ہے جو بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہوتی، ایسے ہی پاکستان کے کچھ بڑے شہروں کے نام کیسے پڑے،کچھ معلومات پیش ہیں۔

اسلام آباد:

اس کا نام مسلمانانِ پاکستان کے مذہب اسلام کے نام پر اسلام آباد رکھا گیا۔

 

1959ءمیں مرکزی دارالحکومت کا علاقہ قرار پایا۔

راولپنڈی:
یہ شہر راول قوم کا گھر تھا۔ چودھری جھنڈے خان راول نے پندرہویں صدی میں باقاعدہ اس کی بنیاد رکھی۔


کراچی:
تقریباً 220 سال پہلے یہ ماہی گیروں کی بستی تھی۔ کلاچو نامی بلوچ کے نام پر اس کا نام کلاچی پڑگیا۔ پھر آہستہ آہستہ کراچی بن گیا۔ کراچی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک عورت کے نام پر ہے جو کہ ماہی گیر تھیں جسے مائی کولاچی کہا جاتا ہے اور اس کے نام سے آج تک کراچی میں ایک شاہراہ ہے۔۔ انگریز اسے کولاچی کے بجائے کوراچی کہتے تھے جو کہ بعد مین کراچی بن گیا ۔

1925ءمیں اسے شہر کی حیثیت دی گئی۔1947ءسے 1959ءتک یہ پاکستان کا دارالحکومت رہا۔

ملتان :

کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی تاریخ 5 ہزار سال قدیم ہے۔ البیرونی کے مطابق اسے ہزاروں سال پہلے آخری کرت سگیا کے زمانے میں آباد کیا گیا۔ اس کا ابتدائی نام ”کیساپور“ بتایا جاتا ہے۔

کتبِ تاریخ میں ہے کہ ایک قوم جس کا نام مالی تھا یہاں آکر آباد ہوئی اور سنسکرت میں آباد ہونے کو استھان کہتے ہیں یوں اس کا نام مالی استھان پڑھ گیا جو بعد میں بدل کر مالی تان بن گیا پھر وقت کے ساتھ ساتھ مالیتان ، مولتان اور اب ملتان بن گیا ہے۔

لاہور:
لاہور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس شہر کو پرانے زمانے میں لوپورکہا جاتا تھا کیونکہ اس کو لوہ نے آباد کیا تھا اور
اس کے جڑوے بھائی کُش نے قصور کو آباد کیا تھا۔ لوہ اور کُش دونوں ہندو دیوتا رام کے دو بیٹے تھے جن کا ذکر ہندو مذہبی کتاب راماین میں تفصیل سے ہوا ہے۔اس شہر کا پرانا نام لوپور (معنی:لو کا علاقہ/شہر) ہوا کرتا تھا بعد میں اسے لاہور کہا جانے لگا ، لاہور دو الفاظوں کا مرکب ہے ہے یعنی لوہ یا لاہ جس کا مطلب لَو اور آور جس کا مطلب قلعہ ہے، یعنی لاہور کا مطلب لو کا قلعہ ہے۔

اس کے علاوہ لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے لکھا جو ہندوستان جاتے ہوئے لاہور سے 630 عیسوی میں گزر رہے تھے۔ اس شہر کی ابتدا‏ئی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے "لوہو" یا لَو نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو "پرانوں" میں لاہور کا نام "لوہ پور" یعنی لوہ کا شہر ملتا  ہے۔ راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔

قصور:
بیاس کی 470 کلو میٹر یعنی 290 میل لمبائ تھی ۔ اس کے قرب وجوار میں سیکڑوں چھوٹی بڑی بستیاں آباد تھیں۔ ہر آبادی کا اپنا مکھیا ہوا کرتا تھا جسے راجہ مہاراج بادشاہ وغیرہ کا درجہ حاصل ہوتا تھا۔ تکڑا بادشاہ دوسری بستیوں پر قبضہ جما کر اپنی سلطنت میں اضافہ کر لیتا تھا۔ ہر ریاست یعنی بستی کے اپنے اصول طور انداز اور نام ہوتے تھے لہذا اس عہد کے حساب سے ساری ولاءتوں کو قصور کا نام نہیں دیا جا سکتا گو کہ وہ آج قصور کا حصہ ہیں۔ آج کی زبان میں اور آسانی کے لیے اسے قصور کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ابچیترا ناتک از گرو گوبند سنگھ کے مطابق قصور کشا بن شری رام نے بنایا جبکہ لاہور لاوا (لوہ) بن شری رام نے بنایا۔ یہ اس ایریا کی الگ الگ دو ولاءتیں تھیں ناکہ پورا ایریا۔ یہ دونوں بڑے زبردست یودھا تھے۔ انھوں نے اور بعد میں ان کی اولادوں نے دور نزدیک کے ممالک پر تسلط حاصل کر لیا۔ اس حوالہ سے انھیں بھی قصور یا لاہور کہا جانے لگا۔ بعد ازاں قصور کے راجے نے لاہور پر قبضہ جما لیا اور لاہور قصور کا حصہ قرار پایا۔
حیدر آباد:

اس کا پرانا نام نیرون کوٹ تھا۔ کلہوڑوں نے اسے حضرت علیؓ کے نام سے منسوب کرکے اس کا نام حیدر آباد رکھ دیا۔ اس کی بنیاد غلام کلہوڑا نے 1768ءمیں رکھی۔ 1843ءمیں انگریزوں نے شہر پر قبضہ کرلیا۔ اسے 1935ءمیں ضلع کا درجہ ملا۔پشاورپیشہ ور لوگوں کی نسبت سے اس کا نام پشاور پڑگیا۔ ایک اور روایت کے مطابق محمود غزنوی نے اسے یہ نام دیا۔

سکھر:
سکھر شہر ایک قدیمی شہر ہے اس کا نام سکھر شاید پراکرت زبان کا لفظ ہے یعنی را پر پیش سے جس کا مطلب ہے "اعلی " اس کا یہ نام شاید اس وجہ سے پڑا ہو کہ سندہ کا حکمران طبقہ یہیں پر ہوتا تھا اس کا ایک اور نام بھی ملتا ہے جو کہ دریاء ڈنو ہے یعنی  دریاء کا چھوڑا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ جھاں آج کل سکھر شہر آباد ہے وہاں پر کبھی دریاء بہتا تھا۔ عربوں کے وقت اس کا نام بھکر بھی بتایا جاتا تھا ۔ شہر اروڑ جس کو فتح کر کہ محمد بن قاسم نے سندہ پر اسلام کا جھنڈا لھرایا تھا وہ بھی اسی کے ساتھ ہی ہے جسے آج کل روہڑی کہتے ہیں۔مغل حکمرانوں کے دور میں اس شہر نے خاصی ترقی کی۔ واللہ عالم
کوئٹہ :

لفظ کوئٹہ، کواٹا سے بنا ہے۔ جس کے معنی قلعے کے ہیں۔

گڑتے بگڑتے یہ کواٹا سے کوئٹہ بن گیا۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ:

اس شہر کا نام ایک سکھ "ٹیکو سنگھ" کے نام پہ ہے "ٹوبہ" تالاب کو کہتے ہیں یہ درویش صفت سکھ ٹیکو سنگھ شہر کے ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھا رہتا تھا اور ٹوبہ یعنی تالا ب سے پانی بھر کر اپنے پاس رکھتا تھا اور اسٹیشن آنے والے مسافروں کو پانی پلایا کرتا تھا سعادت حسن منٹو کا شہرہ آفاق افسانہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ" بھی اسی شہر سے منسوب ہے۔

سرگودھا:
یہ سر اور گودھا سے مل کر بنا ہے۔ ہندی میں سر، تالاب کو کہتے ہیں، گودھا ایک فقیر کا نام تھا جو تالاب کے کنارے رہتا تھا۔ اسی لیے اس کا نام گودھے والا سر بن گیا۔ بعد میں سرگودھا کہلایا۔ 1930ءمیں باقاعدہ آباد ہوا۔

بہاولپور:
نواب بہاول خان کا آباد کردہ شہر جو انہی کے نام پر بہاولپور کہلایا۔ مدت تک یہ ریاست بہاولپور کا صدر مقام رہا۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی یہ پہلی رہاست تھی۔ ون یونٹ کے قیام تک یہاں عباسی خاندان کی حکومت تھی۔
فیصل آباد:

اسے ایک انگریز سر جیمزلائل (گورنرپنجاب) نے آباد کیا۔ اس کے نام پر اس شہر کا نام لائل پور تھا۔ بعدازاں عظیم سعودی فرماں روا شاہ فیصل شہید کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔
رحیم یار خاں :

بہاولپور کے عباسیہ خاندان کے ایک فرد نواب رحیم یار خاں عباسی کے نام پر یہ شہر آباد کیا گیا۔عبدالحکیم جنوبی پنجاب کی ایک روحانی بزرگ ہستی کے نام پر یہ قصبہ آباد ہوا۔ جن کا مزار اسی قصبے میں ہے۔

ساہیوال:
یہ شہر ساہی قوم کا مسکن تھا۔ اسی لیے ساہی وال کہلایا۔ انگریز دور میں پنجاب کے انگریز گورنر منٹگمری کے نام پر ”منٹگمری“ کہلایا۔ نومبر 1966ءصدر ایوب خاں نے عوام کے مطالبے پر اس شہر کا پرانا نام یعنی ساہیوال بحال کردیا۔

سیالکوٹ:
2 ہزار قبل مسیح میں راجہ سلکوٹ نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ برطانوی عہد میں اس کا نام سیالکوٹ رکھا گیا۔
گوجرانوالہ:
ایک جاٹ سانہی خاں نے اسے 1365ءمیں آباد کیا اور اس کا نام ”خان پور“ رکھا۔ بعدازاں امرتسر سے آ کر یہاں آباد ہونے والے گوجروں نے اس کا نام بدل کر گوجرانوالہ رکھ دیا۔
شیخوپورہ :

مغل حکمران نورالدین سلیم جہانگیر کے حوالے سے آباد کیا جانے والا شہر۔ اکبر اپنے چہیتے بیٹے کو پیار سے ”شیخو“ کہہ کر پکارتا تھا اور اسی کے نام سے شیخوپورہ کہلایا۔

ہڑپہ :

یہ دنیا کے قدیم ترین شہر کا اعزاز رکھنے والا شہر ہے۔ ہڑپہ، ساہیوال سے 12 م یل کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ موہنجوداڑو کا ہم عصر شہر ہے۔ جو 5 ہزار سال قبل اچانک ختم ہوگیا۔رگِ وید کے قدیم منتروں میں اس کا نام ”ہری روپا“ لکھا گیا ہے۔ زمانے کے چال نے ”ہری روپا“ کو ہڑپہ بنا دیا۔

ٹیکسلا:
گندھارا تہذیب کا مرکز۔ اس کا شمار بھی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ راولپنڈی سے 22 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ 326 قبل مسیح میں یہاں سکندرِاعظم کا قبضہ ہوا تھا۔
پتوکی:
پتوکی پاکستان کا واحد شہر ہے جس میں پھولوں کی مارکیٹ ہے۔ اسی وجہ سے اس شہر کو "پھولوں کا شہر" بھی کہا جاتا ہے۔
بہاولنگر:
ماضی میں ریاست بہاولپور کا ایک ضلع تھا۔ نواب سر صادق محمد خاں عباسی خامس پنجم کے مورثِ اعلیٰ کے نام پر بہاول نگر نام رکھا گیا۔

مظفر گڑھ:

والئی ملتان نواب مظفرخاں کا آباد کردہ شہر۔ 1880ءتک اس کا نام ”خان گڑھ“ رہا۔ انگریز حکومت نے اسے مظفرگڑھ کا نام دیا۔

میانوالی :

ایک صوفی بزرگ میاں علی کے نام سے موسوم شہر ”میانوالی“ سولہویں صدی میں آباد کیا گیا تھا۔

ڈیرہ غازی خان:

ڈیرہ غازی خان کی دھرتی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے، پندرہویں (15) صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا۔ ایک ممتاز بلوچ سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر دریائے سند ھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی۔ ڈیرہ کا لفظ فارسی سے نکلا ہے جس کے معنی رہائش گاہ ہے۔

پاکستان کا یہ شہر اس حوالے سے خصوصیت کا حامل ہے کہ اس کی سرحدیں چاروں صوبوں سے ملتی ہیں۔
جھنگ :

یہ شہر کبھی چند جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ اس شہر کی ابتدا صدیوں پہلے راجا سرجا سیال نے رکھی تھی اور یوں یہ علاقہ ”جھگی سیال“ کہلایا۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جھنگ سیال بن گیا اور پھر صرف جھنگ رہ گیا۔

پاکپتن:
پاکپتن کا معروف قدیمی نام اجودھن تھا۔ بعض روایات کے مطابق اسے کٹورہ کہا جاتا تھا جو بابا فرید کی آمد سے پہلے ہندوؤں کا مقدس شہر تھا۔ 1235ء میں بابا فرید الدین گنج شکر نے اجودھن کو اپنا مسکن بنایا تو آپ کی نسبت سے اجودھن کا نام بدل کر پاکپتن کر دیا گیا۔

عارف والا:

انیسویں صدی عیسوی تک عارف والا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کو چک 61 ای بی کہتے تھے، جس کا نام بعد میں وہاں کے مشہور زمیندار عارف کے نام عارف والا رکھا گیا۔

1908ء میں ڈپٹی گورنر ہربرٹ نے عارف والا کے نام سے شہر کی بنیاد رکھی جس کو 1995ء میں پاکپتن کی تحصیل کا درجہ دیا گیا۔