شام کے وقت بھی گرمی اور حبس اتنا کہ دم گھٹ رہا تھا ۔اسنیکس کے ساتھ سافٹ ڈرنک کا آڈر دے کر فورا گاڑی کے شیشے اوپر کیے کہ اتنی سی دیرمیں کولنگ ختم اور لو کے تھپیڑوں نے گال سرخ کر دیے، سخت بوریت ہو رہی تھی ۔ تنگ آ کر یونہی سڑک پر گہما گہمی کو دیکھنے لگی ۔
ایسے میں سڑک پار بے دھیانی میں ایک گدھا گاری پہ نظر پڑی جہاں ایک نوجوان جوڑا بیٹھا تھا اور عورت کی گود میں ایک چند ماہ بچہ تھا جسے وہ گود میں لٹائے تھپک رہی تھی ۔ پاس ہی کسی چیز کے ڈھیر کو انہوں نے کپڑے سے ڈھک رکھا تھا۔
شاید پھل تھے جو انہوں نے دن بھر بیچے تھے ۔ ایسے ہی بے دھیانی میں نظر اس عورت کے چہرے کی طرف گئی سانولا سا بے ریا چہرہ شاید قریبی پانی کے نل سے ہاتھ منہ دھو کے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر عجیب ساسکون تھا۔ چہرے پہ شرمگیں مسکراہٹ سجائے کبھی بچے کو دیکھتی کبھی اپنے شو ہر کو، جس نے روٹی کے دو ٹکڑے کیے ایک ٹکڑا عورت کے ہاتھ میں دیا ۔
دونوں میاں بیوی خود میں مگن بے حد مطمئن لگ رہے تھے ۔ قطع نظر اس کے کہ باہر کتنی گرمی ہے ان کے ارد گرد کتنی بڑی چھوٹی گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ ان کی دنیا مکمل اور خوبصوت تھی بے حد خوش گوار !
بغیر گاڑی ، اےسی ، موبائل ، قیمتی ملبوسات سے بے نیاز اپنے حصے کا رزق کھاتے ایک دوسرے کے ساتھ خوش۔ دن بھر محنت مزدوری کی، گلیوں میں گھوم کر پھل بیچا اور شام کو روکھی سوکھی کھا کر بہترین پکنک کے ساتھ دونوں شاد آباد اپنی گدھا گاڑی کو لیے اپنے گھر کی جانب بڑھ گئے۔
میرے حساب سے میرے پاس سب کچھ تھا بہترین تھا۔ پھر کیا تھا جو ان کے پاس تھا اور مجھے بے چین کئے ہوئے تھا کہ مجھ میں کیا کمی تھی ۔رات بھر سوچتی رہی کہ دور کہیں فجر کی اذان ہوئی تھی ۔ لگاکوئی ہاتھ پکڑ مجھے الله کی بارگاہ میں لے گیا جب نماز کے بعد ہاتھ الله کی بارگاہ میں اٹھے تو بے اختیار " شکر " کا کلمہ ادا ہوا ... تب کہیں جا کر احساس ہوا مجھ میں شکر کی کمی ہے۔