(دوسری قسط)
’’ثنا ذرانوٹ کرو،زبیدہ بنت شکیل کی دشتِ تمنا ،تلاش کرکے الگ کرنی ہے،قسط وارکہانی کے لیے پہلے اسے پڑھناہے۔‘‘
’’اچھامگر وہ توشایدجب آپ ساری ڈاک کھولیں گی تب دکھائی دے گی‘‘وہ بولی۔
تب ہمیں یاد آیاکہ ابھی توڈاک کھولنے کاکام ہی پورانہیں ہوا۔
’’پپ پانی ‘‘ہمیں اچانک سخت ترین پیاس محسوس ہوئی اورہم کرسی پرگرتے ہوئے بولے۔نسرین بھاگ کر گئی ،پانی لائی۔اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پیٹ میں چوہے بھی دوڑنے لگے۔نسرین اورثنا کا حال بھی پتلا تھا۔
’’باجی کھانے کاوقفہ کب ہوگا؟‘‘ثنا نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’سواتین توبج رہے ہیں۔‘‘
میں کچھ جواب نہ دے پائی تھی کہ اتنے میں اسماء کھانے کی ٹرے ہاتھ میں لیے اندرداخل ہوئی۔
’’اماں جان کہہ رہی ہیں کچھ کھا پی لیں۔‘‘ وہ بولی اورہم نعمتِ غیر مترقبہ سمجھ کر کھانے پرٹوٹ پڑے۔خوب ڈٹ کر کھایا۔ فارغ ہوتے ہوتے چار بج گئے۔
’’اب ایساکرو کہ لفافے کھولنے کاکام تم دونوں مل کر کرو۔صبح سے اب تک اب تک ہاتھ پرہاتھ دھرے ہی بیٹھی ہو۔کام چورکہیں کی۔‘‘
’’جی اچھا‘‘وہ دونوں منہ بسورکر بولیں۔شاید انہیں یہ کام پسند نہیں تھا۔ابھی تھوڑے ہی لفافے کھلے تھے کہ عصر کی اذان ہوگئی۔
’’باجی عصرکے بعد میں نے ٹیوشن پڑھانا ہوتاہے،میں جارہی ہوں۔‘‘نسرین اٹھتے ہوئے بولی۔
’’اور میں بھی بہت تھک گئی ہوں‘‘ثنا بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔خود ہمارا حال بھی یہی تھا۔
اس طرح پہلادن گزرگیا ۔ہم گھرداری میں مصروف ہوگئے مگرساتھ ساتھ سوچتے جارہے تھے کہ آج کیاکام ہواہے،کچھ بھی تونہیں۔
*
اگلے دن منگل تھا۔ دونوں جوں ہی آئیں،ہم نے انہیں لفافے کھولنے اورخطوط ،نظمیں ،کہانیاں اورمضامین الگ الگ کرنے پرلگادیا۔دس بجے یہ کام مکمل ہوا،تب تک ہم ایک کاغذ پر رسالے کو بہترسے بہتر بنانے کے لیے ایک ماسٹرپلان طے کرتے رہے ،جس کے اہم نکات یہ تھے۔تما م کے تمام مستقل سلسلے ہرشمارے میں شامل ہوں،رسالے کے صفحات ایک سوبیس کردیے جائیں ، مکمل آرٹ پیپرپرشایع ہو،مکمل رنگین ہو،ہرصفحے پر ڈیزائن اورتصاویر ہوں۔
*
ساڑھے دس بجے ہم اپنی میزپرڈاک کے ساتھ انصاف کرنے بیٹھے۔آج ہم میں خاصا اعتماد آچکاتھا۔
’’ثنا!پہلے خطوط لاؤ،جو جوخط میں دیتی جاؤں ،نسرین سے کمپوزکراتی جانا۔‘‘ہم نے خالص مدیرانہ لہجے میں کہاتووہ ہمیں رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے الماری کی طرف بڑھ گئی۔
اب ہم خطوط پڑھنے لگے۔فٹافٹ دس بارہ خطوط پڑھ ڈالے ۔ سب ہی میں تعریفیں لکھی تھیں ۔ہم بڑے خوش ہورہے تھے گویااب تک سارے شمارے ہم ہی نے ترتیب دیے ہوں۔سب خطوط کو ’’اوکے ‘‘کرکے ثناکے حوالے کردیا۔
’’بھئی انہیں کمپوزکرالو۔پھرپرنٹ لے کرتصحیح کردینا۔ٹھیک ہے۔‘‘
’’آپ بے فکررہیں۔‘‘وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی۔
اب ہم اگلاخط پڑھنے لگے ۔لاہور سے بنت فضل نے لکھاتھا:
’’محترم مدیرچاچا!‘‘
ہم نے ناگواری سے ناک سکوڑی اورجلدی سے قلم اٹھاکرچاچاکو باجی میں تبدیل کیااورپھرآگے پڑھا۔
’’رسالہ بہت اچھا جارہا ہے۔زیتون آپا کی قسط وار کہانی’بس تشنگی ہی تشنگی‘ کی ایک سوپندرہویں قسط نے بہت رُلایا،یہ کہانی بہت ہی اچھی چل رہی ہے ،پلیز اسے جلد ختم نہ کریں ۔‘‘ ’’ٹھیک ہے‘‘ہم بڑبڑائے اورثنا کوموبائل دیتے ہوئے کہا:
’’قسط وار کہانی کو ذرا لمبا کرنا ہے ،زیتون باجی کو فون کرو،پہلے پوچھو،کتنی قسطیں باقی ہیں،پھر کہنا، چار پانچ قسطیں اور بڑھادیں،ماشا ء اللہ لڑکیاں بہت پسند کررہی ہیں۔میراسلام بھی کہنا۔‘‘
’’جی بہتر‘‘وہ موبائل پرفرحت باجی کانمبرڈائل کرنے لگی۔اورہم اگلاخط پڑھنے لگے۔چاکی واڑہسے میسون بی بی نے کافی سارے تعریفی جملے لکھے تھے ،پڑھ کرخوش ہوئے مگرپھرآخری جملے پڑھ کرہمارے ہوش اڑگئے۔
’’قسط وار کہانی بوت بور ہے۔بائی جان !اسے کیوں لگاتے ہو،سو سے پندرہ قسطیں اوپر ہوگیا،پڑھ پڑھ کرہمارادماغ گوم گیا،ہمارااَمّاں روروکے پاگل ہوگیا،بائی اسے جلدی ختم کردو نہیں توہمی کوکچھ کرناہوگا۔‘‘
’’اوہ اوہ ۔‘‘ہم نے جلدی سے ثناکود یکھاجو فون پر ہنس ہنس کر کہہ رہی تھی۔۔۔’’ہاں ہاں چارپانچ قسطیں اور بڑھادیں۔ کیاکہا،سات آٹھ قسطیں اورکھینچ سکتی ہیں۔چلیے ٹھیک ہے۔۔۔‘‘
(جاری ہے)