آ بیل !مجھے مار!

ہم جلدی سے اٹھ کر ثناکے سامنے آئے اوراسے دونوں ہاتھ ہلاہلاکر’’اسٹاپ ‘‘کا اشارہ کیامگروہ کچھ اورہی سمجھی ،ہمارے ہاتھوں کی انگلیوں کو گن کر بولی:
’’
نہیں ،بلکہ دس قسطیں اورکردیں۔اچھاشکریہ ۔‘‘
اس نے فون بند کیا اورہم نے سرپکڑلیا۔خاصی دیر ثنا پر برستے رہے مگرا س کاکہناتھا:
’’
آپ نے ہی مجھے دس دس کااشارہ کیاتھاجوبیس

قسطیں بن رہی تھیں۔وہ تومیں نے احتیاطاً کم کرکے دس قسطوں کاکہاہے۔‘‘
وہ منہ پھلاکرایک طرف بیٹھ گئی اورہم سرکھجلاتے ہوئے مزید خطوط پڑھنے لگے۔
’’
آپ کے میگزین کی کیابات ہے ،آپ کاساراعملہ سورج چاند کی طرح چمکتارہے ،بادل کی طرح گرجتا،بارش کی طرح برستااوربجلی...

کی طرح کڑکتارہے،آپ سب کوایسی بے مثال محنت پربہت بہت مبارکباد۔ویسے آج کل زیادہ ترکہانیاں غمگین آرہی ہیں۔آپ مزاحیہ کہانیاں کیوں شایع نہیں کرتے؟سارہ منہاس بہت اچھی مزاح نگار ہیں،ان کی کہانیاں ہرشمارے میں ضرورشایع کریں۔بلقیس خانم،لیہ‘‘
ہم نے جلدی سے اسے بھی ’’اوکے ‘‘ کیااورنیچے جواب لکھ دیا’’ان شاء اللہ سارہ منہاس کی کہانیاں اب باقاعدگی سے شایع ہوں گی۔‘‘
ساتھ ہی ہم نے ثناکوکہاکہ وہ سارہ کو فون کرکے کہے کہ ایک ساتھ تین چار مزاحیہ کہانیاں بھیج دے تومہربانی ہو گی۔ ثنانے فون کرکے سارہ کویہ پیغام دے دیااورمیں نے اس دوران چارپانچ اورخط پڑھ ڈالے ،سب مدیرچاچا کومکھن لگارہے تھے مگرہمیں پڑھ کریہ محسوس ہورہاتھاکہ یہ مکھن چاچی ہی کے لیے ہے۔

اچانک ایک بھاری بھرکم خط سامنے آگیا۔یہ راولپنڈی سے بنت لیاقت نے لکھاتھا۔خط بارہ تیرہ صفحات پرمشتمل تھا،جوں جوں ہم پڑھتے گئے ہماراپارہ چڑھتاگیا۔آخرمیں تحریرتھا۔
’’
آپ نے رسالے کوہدایت کاچراغ بنانا تھا مگر آپ نے اسے ہنڈ کلیا اور کھیل کھلونا بنا لیا ہے۔ضرورت ہے سنجیدہ تحریریں شایع کرنے کی مگر آپ ہیں کہ درسِ عیش دے رہے ہیں۔آپ کومعلوم نہیں،ملک کاکیاحشر ہورہاہے مگرآپ مزاحیات اورلطیفے شایع کرکے اپنی سنگ دلی کاثبوت دے رہے ہیں۔خصوصاً سارہ منہاس کی تحریروں میں توسوائے مذاق اورخرافات کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔خدارا، ایسی تحریریں مت لگائیں ورنہ ہم اپنے علاقے میں آپ کے رسالے کے خلاف مہم شروع کردیں گے۔‘‘
مجھے چکرساآنے لگا۔ایک جھرجھری سی لے کریہ خط ردی کی ٹوکری میں پھینکا۔کچھ دیرسوچتے رہے۔پھرتھکے تھکے لہجے میں ثنا سے کہا:
’’
سارہ کودوبارہ فون کرو ،کہو،مزاحیہ تحریریں ابھی نہ بھیجے۔‘‘
’’
یہ کیوں باجی؟‘‘ثنا سوالیہ نشان بن گئی۔’’ابھی توآپ نے کہاتھاان سے مزید تین چارکہانیاں لکھوانی ہیں۔‘‘
’’
کیوں کیوں مت کرو،جو کہاہے وہ کرو۔‘‘ہم نے اسے گھورااوروہ ہمیں ترس کھانے والی نگاہوں سے دیکھنے لگی جیسے ہماری دماغی حالت پراسے شبہ ہوگیاہو۔
*
’’
ساڑھے بارہ بج گئے ہیں۔آج دوسرا دن ہے۔ابھی تک چندخطو ط کے سواکچھ بھی موادکمپوزنہیں ہوا۔ہم نے چاردن میں پورارسالہ تیارکرکے اتوارکوپریس بھیجناہے۔‘‘ثنانے ہمیں متنبہ کیا۔ ایک گھنٹے اس کا موڈ آف رہا تھا، پھر ہم نے سموسے وغیرہ منگوا کر کھلائے جس کے بعد اب اس کی طبیعت بحال تھی۔
’’
اوہ، اوہ ۔۔۔‘‘ہم سوچ میں گم ہوگئے۔
’’
اچھا ایسا کرو۔یہ باقی خطوط ویسے ہی ردی کی ٹوکری میں ڈال دو اور مجھے ذرا کہانیاں دے دوجوتم نے الگ کی ہیں،ڈھونڈتی ہوں کوئی اچھی سی کہانی ۔آج شام تک دوتین کہانیاں نکالنی ہیں۔‘‘
نمازِظہرکے بعدکھانے کاوقفہ تھا۔ کھانے کے دوران ہم رسالے کوبہترسے بہتر بنانے پرمشورے کرتے رہے۔
’’
باجی میراخیال ہے جن خواتین کی کئی کئی تحریریں لگ چکی ہیں ان پرپابندی لگادی جائے۔آخر نئے لکھنے والوں کابھی توحق ہے۔‘‘نسرین کہہ رہی تھی۔
’’
ہاں باجی ،بلکہ پرانی لکھنے والیوں سے معذرت ہی کرلی جائے۔‘‘ثنا جلے کٹے لہجے میں بولی۔’’ان مستقل لکھنے والیوں ہی کی وجہ سے ہم جیسی کتنی مظلوم لڑکیوں کی حق تلفی ہوتی آرہی تھی۔ ان کی تحریریں ہرباراکثررسالوں کااکثرحصہ گھیرلیتی ہیں اورہم جیسوں کے حصے میں کیاآتاہے ،ردی کی ٹوکری۔‘‘
دونوں نے میرے دل کی بات کہہ دی تھیلہٰذاہم نے فوراً حکم جاری کیا۔
’’
ٹھیک ہے ،نوٹ کرلو۔عرشہ شاہد،ہمشیرنیک محمد، رفعت رعدی، اہلیہ بلند اقبال، قرأت گلشن ، خالدہ غلام احمد، توحید جعفر،فرحانہ رباب، اہلیہ عبدالرحیم صدیقی۔۔۔وغیرہ وغیرہ کی کوئی تحریر میری میز پر مت آنے دینابلکہ۔۔۔پڑھے بغیرتمہی ان پرناقابل اشاعت لکھ دینا۔‘‘
’’
اوکے میڈم‘‘ثنانے خوش ہوتے ہوئے کہا۔پتا نہیں وہ کب سے ان مصنفات سے انتقام لینے کی منتظر تھی۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی اورہمیں یادآیاکہ دوسے چاربجے تک فون آتے ہیں۔جھٹ کان سے لگایا۔

(جاری ہے)