آج چاند رات تھی۔ پورا رمضان عائشہ کا دعائیں مانگتا گزرا تھا۔ اس نے ایسی غلطی کی سزا پائی تھی جس اس نے کی ہی نہیں تھی۔ بھائی اور بھابھی کا رویہ بہت اچھا تھا لیکن کب تک؟ الفت خاتون اس کے اداس چہرے کو دیکھ کر متفکر ہوتی رہتیں۔
آج بھی وہ دوپہر کے کھانے کے بعد عبداللہ کو سلانے کے لیے لیٹی تھی۔ اچانک بیرونی دروازے کی بیل بجی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے سنا الفت خاتون کسی کو اندر لا رہی تھیں ۔ خوشی ان کی آواز سے چھلک رہی تھی۔ کون آیا ہے؟
عائشہ حیرانی سے سوچتی ہوئی دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی باہر آگئی۔
’’اظہر آیا ہے تمھیں لینے۔‘‘ الفت خاتون نے بتایا تو وہ بت بنی کھڑی رہ گئی۔ یکدم آنکھوں میں آنسو آنے لگے تو وہ دوبارہ کمرے میں چلی گئی۔ کیوں آئے ہیں اب! آنٹی مان گئیں کیا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہونہہ اب میری یاد آئی ہے۔ وہ دل ہی دل شکوہ کناں بھی تھی اور خوش بھی۔
’’عائشہ! ‘‘ اظہر کی آواز آئی ۔’’مجھے معاف کر دو۔ ‘‘ وہ اس کے پیچھے کھڑا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازیہ یونیورسٹی جا چکی تھی ۔ اظہر اور محمود صاحب عائشہ کو لینے گئے ہوئے تھے۔ زرینہ بیگم نے اس دن پہلی بار سوچا ۔ عائشہ کے بغیر واقعی ان کا گھر ادھورا تھا۔ سب سے بڑی بات ان کے اکلوتے بیٹے کی زندگی اور خوشیاں ادھوری تھیں۔ وہ کتنی ظالم ماں ثابت ہوئی تھیں کہ انہوں نے اپنے ہی بیٹے سے چہرے کی مسکراہٹ چھین لی تھی۔
نہیں میں اب ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ شرعی پردہ تو اللہ کا حکم ہے۔ میں کون ہوتی تھی روکنے والی۔ اللہ مجھے معاف کرے۔ اس بچی نے کتنا صبر کیا ۔ میں اب اس کی تکلیفوں کا ازالہ کروں گی۔
وہ بیڈ سے ٹیک لگائے خود سے کہتی چلی گئیں ۔ پھرکچھ سوچ کر انہوں نے ساتھ والی امتل خالہ اور ان کے گھر آئی ہوئی ملازمہ کو بھی بلا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھلا اور عائشہ سب سے پہلے اندر داخل ہوئی ۔ پھر اس کے پیچھے محمود صاحب تھے پھر اظہر جو کن اکھیوں سے ماں تاثرات دیکھ رہا تھا۔ جس طرح زرینہ بیگم نے عائشہ کو گلے لگایا اور پیار کیا وہ سب کے لیے حیرت انگیز بات تھی۔ پھر عبداللہ کو والہانہ پیار۔۔ جہاں محمود صاحب کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا وہیں اظہر کے ساتھ ساتھ عائشہ بھی بے یقین سی تھی۔ سب کمرے صاف ستھرے اور چمکے ہوئے تھے حتیٰ کہ کچن سے بھی چکن پلاؤ کی خوشبو آرہی تھی۔
کھانے کے بعد عائشہ برتن اٹھانے لگی تو زرینہ بیگم نے منع کر دیا اور نازیہ کو اشارہ کیا۔ پھر وہ کہنے لگیں۔
’’دیکھو بہو! آج سے تم اس گھر کی بہو نہیں بیٹی ہو۔ یہ رہیں سودے والی الماری کی چابیاں اور یہ رہی اظہر کی تنخواہ۔ بس تم جانو گھر کا خرچہ کیسے چلانا ہے۔ مانو میں تو تھک ہی گئی ہوں۔ اور ہاں مجھے معاف کر دینا۔ بس ساس بن کر بھول ہی گئی تھی کہ بہو بھی کسی کی بیٹی ہوتی ہے۔ ‘‘ آخری جملے انہوں نے گلوگیر آواز میں کہے اور عائشہ اٹھ کر ان کے گلے لگ گئی۔آخر کار زرینہ بیگم کو سمجھ آگیا تھا کہ کانٹوں کے بیج بو کر پھولوں کی تمنا رکھنا بے کار ہے۔