لائبہ چائے کا مگ لئے ٹیرس پر آکھڑی ہوئی باہر موسم بہت خوشگوار تھا۔سورج کا بھی مغرب کی طرف جاری سفر کا اختتام ہونے کوتھا۔سامنے فٹ پاتھ پر ایک ضعیف العمربڑھیاسرجھکائے پریشان حال بیٹھی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھاجیسے عمر سے پہلے ہی وقت نے اس کے بالوں میں چاندی اتاردی ہو۔
شایدبے چاری بڑھیاکا ذہنی توازن خراب ہے۔لائبہ نے بڑھیا کی حرکات وسکنات کو غور سے دیکھتے ہوئے اپنے تئیں سوچا ۔
بڑھیا کی نظر جونہی لائبہ کے چہرے سے ٹکرائی تو چند لمحے وہ لائبہ کو غورسے دیکھتی رہی اور پھر اس کے قدم لائبہ کی طرف اٹھتے چلے گئے اوربنگلے کے خارجی گیٹ کے پاس رک گئے ۔
ہوسکتا ہے ضرورت مند ہو۔یہ خیال آتے ہی لائبہ بھی خارجی گیٹ عبور کر کے اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ بڑھیا ٹکٹکی باندھے اسے غور سے دیکھنے لگی۔
’’کیابات ہے ماں جی۔‘‘لائبہ نے نرمی سے پوچھا لیکن جواب ندارد۔
’’ماں جی کیا ہوا ۔کیا آپ پریشان ہیں۔‘‘بڑھیا کے لبوں پربدستور خاموشی رہی اور نہ ہی اس کی بوڑھی آنکھوں میں کوئی جنبش ہوئی لائبہ ڈری تو سہی لیکن جمی رہی۔
ماں جی آپ ٹھیک تو ہیں ۔اب کی بار لائبہ نے بڑھیا کے کندھے کو جنبش بھی دی تھی۔
’’مم..مم..میں ٹھیک ہوں ؟میں کیسے ٹھیک ہو سکتی ہوں میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے ضائع ہوگیا میرا سب کچھ لٹ گیااور تم کہتی ہو میں ٹھیک ہوں۔‘‘ بڑھیا ایک دم چیخی۔
’’کیا ہوا آپ کے ساتھ کس نے لوٹا آپ کو۔‘‘لائبہ کے چہرے پرحیرت اور تجسس واضح تھا۔
’’تت..تم نے ..تم سب نے..‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا آپ مجھے کھل کر بتائیں شاید میں آپ کی کچھ مدد کرسکوں۔‘‘
لائبہ مزید تجسس میں پڑچکی تھی اور وہ پوری کوشش کر رہی تھی کہ بات کی تہہ تک پہنچ سکے۔
’’اماں آپ کہاں سے آئی ہیں ۔‘‘ لائبہ نے بڑھیا کو کرسی پر بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’میں ۔۔میں وہاں سے۔‘‘ بڑھیانے ہاتھ سےسڑک کی جانب اشارہ کیا۔
’’اچھااماں آپ بتائیے نا کیا دکھ پہنچاہے آپ کو۔‘‘ وہ تذبذب کا شکار تھی۔
’’بتاتی ہوں بیٹا۔‘‘ اب بڑھیا کے لہجے میں پیار اور نرمی کی آمیزش تھی۔
بڑھیانے شانے سے چادر کا پلو کھینچااور ایک موٹی سی گرہ کھولنے لگی۔ لائبہ آگے کو جھکی تاکہ دیکھ سکے۔
گرہ میں سے سبز اور سفید رنگ کی جھنڈیاں برآمد ہوئیں جو کافی پرانی ہو چکی تھیں۔
’’یہ دیکھو!یہ میں نے کھیتوں کے بیچ سے، سڑک کے پار فٹ پاتھ سے ، بازار سے اکھٹی کی ہیں۔ یہ دیکھو! لوگ اس پیارے پرچم کو پاؤں کے نیچے روند دیتے ہیں اور خیال تک نہیں کرتے۔ایک دن کی محبت ایک دن کا جشن اس کے بعد بس یہ جھنڈیاں مٹی میں ہی نظر آتی ہیں۔ احساس مٹ گیا ہے دلوں سے۔نوجوان لڑکے لڑکیاں ان قربانیوں سے غافل ہیں جو ہم نے اس وطن کے لیے دی تھیں۔ میری باتوں کو دقیانوسیت سمجھتے ہیں سب۔ سب ایسا ہی سمجھتے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر بڑھیانے سر سے دوپٹہ ہٹایااور زخم کا نشان دکھایا۔
’’پاک دھرتی کی جانب ہجرت کرتے ہوئے موئے ظالم سکھ نے برچھاماراتھا۔میرابھی خون بہاتھا۔میرے اماں اباکا خون بھی اس زمین میں شامل ہے۔ اس وطن کی قربانی کی چوٹیں ہیں لیکن اتنا درد دشمن کے زخموں کا نہیں ہواتھا سبز ہلالی پرچم کو یہاں وہاں کیچڑ میں پڑا دیکھ کر۔‘‘
اتنا کہہ کروہ انجان سی بڑھیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
لائبہ سن بیٹھی تھی۔ پھر وہ ایک دم اٹھی اور باہر نکل گئی۔ لان کی کیاریوں میں کل کی لگی ہوئی جھنڈیاں اب ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں۔ جب تک اس نے ساری جھنڈیاں اٹھا کر سنبھالیں بڑھیا نہ جانے کب سے جا چکی تھی۔ لیکن لائبہ کو ایک ایسا پیغام دے گئی تھی جس اب اس کے دل سے کبھی نہیں نکل سکتا تھا۔