یہ نواں لاہور سے اخت فاروق تھیں، رسالے کی تعریف میں چندخوبصورت جملے بول کرانہوں نے ہمارا دل خوش کیامگرپھراچانک بولیں:
’’ویسے تو سب کچھ بہت اچھاجارہاہے مگر کچھ دنوں سے مضامین بہت کم ہوگئے ہیں۔کہانیاں تو بچے پڑھاکرتے ہیں،خیرآپ ایک دوکہانیاں لگالیاکریں،مگرہم توکام کی باتیں پڑھنے کے لیے رسالہ خریدتے ہیں مگراب جتنابھی تلاش کرتے رہو ،کوئی کام کی بات نہیں ملتی۔ ‘‘
’’دیکھیں بنت فاروق آپ پختہ عمرکی خاتون معلوم ہوتی ہیں،آپ کی دلچسپی یقیناًمضامین سے ہوگی مگرہمیں توزیادہ ترقاریات کی رائے کو دیکھناہوتاہے۔۔۔‘‘
’’زیادہ تر!حدہوگئی ،آپ مسلمان کہلاتی ہیں اورزیادہ ترکی بات کرتی ہیں ،ارے آ پ یہ دیکھیں کہ دین کیاکہتاہے ،شریعت کیاکہتی ہے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ہاں ہم وہ تو دیکھتے ہی ہیں مگر۔۔۔‘‘
’’کیااگرمگر! دین کی بات کے آگے اگر مگر کچھ نہیں ہوتا۔ اگر آپ میں ایمان ہے تو رسالے سے کہانیاں ختم کریں اور صرف دینی مضامین لگایا کریں ،آیا کچھ سمجھ میں۔‘‘
’’جی آیا،بالکل آیا۔‘‘ہم نے بھیگی بلی بن کرکہا۔فون بندہوتے ہی ہم نے ثناکو یادداشت لکھوائی کہ رسالے میں کہانیاں بس ایک دوہوں گی،باقی سب مضامین ہوں گے۔
ویسے اتنی ڈانٹ سن کرہمارا موڈ بالکل آف ہورہاتھا، فون ہیبند کرنے والے تھے کہ ایک اورکال آگئی۔
’’جی کون ؟‘‘
’’میں راولپنڈی سے بات کررہی ہوں بنت نثار! رسالہ آج کل کون تیار کررہاہے ؟‘‘
’’میں تیارکررہی ہوں۔ام وردہ ،آپ کی باجی!‘‘
’’اچھا تب ہی کہوں کہانیاں کم کیوں ہوگئی ہیں،ہر بارتین چارمضامین آرہے ہیں،دیکھیں باجی ہم توکہانیاں پڑھنے ہی کے لیے رسالہ خریدتے ہیں،مضامین تودینی کتابوں میں مل جاتے ہیں۔‘‘
’’دیکھیں بہن !ہمیں ایک دو کی نہیں سب قاریات کی آراء سامنے رکھناپڑتی ہیں اب آپ کوکہانیاں پسندہیں توبہت سوں کو مضامین بھی۔۔۔‘‘
’’میں بھی ایک دوقاریات کی ترجمانی نہیں کررہی ۔‘‘وہ میری بات کاٹ کرغصے سے بولیں۔’’ہر ایک یہی کہہ رہا ہے کہ اب رسالہ بورہوگیاہے،آخر کہانی کے انداز میں بھی تو نصیحت کی جا سکتی ہے ، اس لیے پلیزآپ رسالے میں مضامین ٹھونسنا بند کریں ورنہ ہم پہلے کی طرح پھرفضول ڈائجسٹ پڑھنا شروع کردیں گے اورگناہ آپ کے سر ہوگا۔‘‘
’’نہیں نہیں ، ایسا ظلم نہ کرنا، آپ کی رائے ہمیں عزیز ہے، آئندہ سے آپ کوزیادہ کہانیاں ملاکریں گی۔‘‘
یہ کہہ کرہم نے ثناکوآوازدی :
’’ثنارانی !بھئی وہ یادداشت کاٹ کرنئی یادداشت لکھوکہ رسالے میں کم از کم چار کہانیاں ضرور شامل کرنی ہیں۔‘‘
وہ بے چاری ہمیں گھورتی رہ گئی ،اس کی نظروں کی تاب نہ لاکرہم اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔چندلمحے گزرے تھے کہ اگلی کال آگئی۔
’’انکل میں حبیبہ بی بی بات کررہی ہوں بابرآباد سے۔۔۔‘‘
’’حبیبہ بی بی بات یہ ہے کہ میں انکل نہیں چچی ہوں۔ ہاں بولو کیا کہنا ہے۔‘‘
’’چچی ،کون چچی‘‘وہ کٹ کھنے لہجے میں بولی۔
’’میں چچی۔۔۔تمہاری چچی‘‘میں نے بھی اسی لہجے میں بات کی ۔اب وہ نرم پڑگئی اوربولی۔’’اچھا!چچی انکل کہاں گئے۔‘‘
ہم کہناچاہتے تھے کہ انکل جہاں بھی گئے ہوں ،اب مدیرہم ہیں ،مگرپھرغصہ تھوک کر بولے ۔
’’وہ سفرپرگئے ہیں۔اب رسالہ میں تیار کیاکرتی ہوں۔‘‘
’’اچھا وہ آئیں گے توفون کروں گی ۔‘‘اور لائن کٹ گئی۔ ہم نے کسی اورآزمائش سے بچنے کے لیے فون بالکل شٹ ڈاؤن کردیا۔
’’ثنا!کہانیاں لاؤ،کچھ انتخاب کریں۔‘‘
اُس نے کہانیوں کا پلندہ سامنے لا دھرا اور ہم ان کی گہرائیوں میں گم ہونے لگے۔
پہلی کہانی تھی’’ماسی کا انتقام‘‘جوشورکوٹ سے زیبا گلزار نے لکھی تھی۔چند پیراگرافوں ہی نے ہمیں بے حد بدمزہ کردیا۔ تانیہ آنٹی ،چچابخشو، ماسی خیراں اور اللہ دتہ کے کردار ہمیں بالکل پسند نہ آئے ۔سونے پر سہاگا یہ کہ کہانی تھی بھی بہت طویل، پورے پچیس صفحات کی۔ہمارے تو سر میں درد ہونے لگا۔آخر ہم نے ہار مان لی اورپوری پڑھے بغیر ہی اس پرسرخ قلم سے ناقابل اشاعت لکھ دیا۔
دوسری کہانی لاہورسے آئی تھی ، بنت زاہرمعلّمہ جامعہ۔۔۔ نے ارسال کی تھی ۔آغازیوں ہورہاتھا۔
’’بنتِ اخی !تمہاری رائے میرے نزدیک مرجوح ہے۔‘‘ساس امّاں نے رافت وشفقت سے مملوء لہجے میں اپنی بہوفائزہ کومخاطب کیا۔
’’امّاں کیا جوقضیہ زیرِبحث ہے اس میں میراطرزِعمل جاد�ۂ عدل واعتدال اورصراطِ مستقیم سے منحرف ہورہاہے؟‘‘فائزہ نے تحیرواستعجاب سے اپنی شعاعِ بصران پرمرکوزکی ۔
’’ہاں بیٹی !تمہارا اسلوبِ حیات متاعِ زندگی کودوشِ انسانیت پر حتماًثقیل کردے گا۔‘‘ساس امّاں کی یہ بات اجمال قبل التفصیل کی قبیل سے تھی۔
’’وہ کیسے ‘‘فائزہ سمجھ گئی کہ امّاں براعۃِ استہلال سے کام لے رہی ہیں۔
’’دیکھو! بااعتبار ما یؤول کے اس قسم کے قضایامیں ہمیشہ چارانواع بناکرتی ہیں۔ایک نوع کی مستورات گاہے جزع وفزع کے بعدسکوت اختیارکرلیتی ہیں،قسم ثانی جدال ونزاع پرجری ہوجاتی ہیں۔قسم ثالث وہ ہے جونفاق وکینہ درونِ قلب مخفی کرکے رکھتی ہیں۔قسم رابع وہ ہے جو ۔۔۔‘‘
اورہمیں محسوس ہوا کہ آگے پڑھنے سے پہلے ہمیں عربی کلاسز میں شرکت کرکے اپنی جہالت دور کرنی چاہیے،چنانچہ بڑی احتیاط سے تحریر کا تعویذ بناکر اسے دراز میں رکھ دیااورنیت کرلی کہ عربی سیکھتے ہی سب سے پہلے یہ تحریرپڑھیں گے۔
اب ڈرتے ڈرتے تیسری کہانی اٹھائی،نواب زادی وزیر بیگم نے ملتان شریف سے لکھی تھی۔عنوان تھا’’رانی کا خواب‘‘
(جاری ہے )