عالیہ کی شادی کو تیسرا سال تھا جب اسے پتہ چلا کہ جو عورت صاحب نصاب ہو اس پر بھی قربانی واجب ہوتی ہے۔ اسے بھی بہت شوق ہوا کہ اس سال میں بھی قربانی کروں۔ اپنے شوہر اور ساس سے بھی اس کا تذکرہ کیا کہ اس سال قربانی میں میرا حصہ بھی رکھیں ۔ ساس کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا کہ ایک حصے پر بہو بیگم کا بھی نام ہوجائے مگر میاں جی کچھ چلبلائے۔
’’اب کیا تم علیحدہ سے قربانی کروگی؟ ہم لوگ کر تو رہے ہیں ۔‘‘
بڑی مشکل سے عالیہ نے اپنے شوہر کو سمجھایا۔
’’ میں نے الگ سے نہیں کرنی۔ جیسے آپ سب کے حصے ہوتے ہیں ویسے بھی گائے میں ایک حصہ میرا بھی رکھ دیجیے گا۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے! لیکن تم جو عید کا جوڑا بنانے کے لیے کہہ رہی تھیں۔ پھر وہ جوڑا نہیں بنا کر دوں گا ۔ ‘‘شوہر نے بھی عجیب سی شرط رکھ دی۔ ایک جھٹکا تو عالیہ کو لگا لیکن پھر سوچا چلو کوئی بات نہیں ۔ عید قرباں پر اصل چیز تو قربانی ہے۔ کیا میں اللہ کے لیے ایک سوٹ کی بھی قربانی نھیں دے سکتی؟ سوٹ کا کیا ہے کوئی بھی پہن لوں گی۔کوئی بات نہیں ۔
عید میں ایک ہفتہ ہی باقی تھا گھر کے باقی سب لوگ اپنے اپنے ملبوسات کو لےکر کافی ایکسائٹڈ تھے۔ خوب تیاریاں ہو رہی تھیں۔ گھر کی سب خواتین اور بچیوں کے جوڑے تیار ہو گئے۔ اور سب کی تیاریاں دیکھ دیکھ کر عالیہ بھی اپنے دل میں سوچتی کیا ہو جاتا اگر میاں جی میرا سوٹ بھی بنا دیتے۔پتہ بھی ہے ان کو کہ مجھے خاص عید پر نئے کپڑے پہننے کا کتنا شوق ہے۔ پھر سوچتی چلو کوئی بات نہیں قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام تھوڑی ہے۔ اصل قربانی تو اپنی خواہشات کی قربانی ہے۔ بس یہ بات سوچتی تو دل مطمئن ہو جاتا تھا۔
عید میں دو دن باقی تھے صبح کے وقت میں عالیہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھی کہ اچانک اس کے بھائی جان اس سے ملنے آگئے۔ عالیہ انھیں دیکھ کر بہت خوش تھی۔ اس وقت عالیہ کے پاس نہ ٹیلیفون تھا اور نہ ہی موبائل فون۔ سوجب بھی کوئی اچانک میکے سے آجاتا تو بے انتہا خوشی ہوتی تھی۔ بھائی جان کچھ دیر تو ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے پھر کہنے لگے۔
’’اور بہنا تم نے عید کا جوڑا بنا لیا؟‘‘
عالیہ کہنے لگی۔’’جی بھائی اللہ کا شکر ہے ۔ جوڑے بہت ہیں۔‘‘
بھائی کہنے لگے۔’’ اچھا ذرا مجھے تو دکھاؤ کون سا جوڑا بنایا ہے عید کے لئے؟‘‘
اب عالیہ سوچ میں پڑ گئی کیا کروں؟ پھر کہنے لگی۔
’’ بھائی جان اصل میں عید والا سوٹ بھی تو رکھا ہے نا ں میں وہی پہنوں گی۔‘‘
بھائی جان مسکرانے لگے۔کہنے لگے۔
’’ اچھا تو تم نے سوٹ نہیں بنایا ناں۔ لو اب میری سنو! کل میں اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول تھا کہ اچانک بس میرے دل میں خیال آیا۔ پتہ نھیں میری بہنا نے عید کا جوڑا بنایا ہے یا نہیں۔میں بس کل ضرور اپنی بہن کے پاس جاؤں گا اور اسے عید کا سوٹ بنانے کے لئے پیسے دے کرآؤں گا۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔
’’یہ لو میں تمھارے لئے کچھ پیسے لے کر آیا ہوں تم میری طرف سے اپنے لیے اچھا سا سوٹ بنا لینا عید کے لئے۔‘‘
اور عالیہ بس انکی شکل ہی دیکھتی رہ گئی۔ یہ خواہش تو اسکے دل کے نہاں خانوں میں تھی جس کا ذکر اس نے کسی سے بھی نہیں کیا تھا اور اللہ نے کیسے اسکے دل کی مراد پوری کی۔ واقعی کوئی سچے دل اور کھرے جذبوں کے ساتھ اس کی طرف آئے تو سہی وہ پاک ذات بہت قدر دان ہے ۔
عالیہ بہت خوش تھی۔ اس کا دل اللہ کے حضور میں سجدہ ریز تھا۔ سچ کہتا ہے وہ کہ میں تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ تمھارے سینوں میں چھپے ہوئےراز جانتا ہوں۔ میرے بندو! تم ہی میرے بارے میں دھوکے میں مبتلا ہو ، میں تو تم پر ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہوں۔ تم سے محبت کرتا ہوں، اپنی ستاری کی چادر میں تمھارے سارے عیبوں کو چھپا لیتا ھوں۔
اور زندگی کے دن گزرتے چلے گئے، روز و شب کے تلخ حقائق میں چھوٹی موٹی خواہشات دب کر رہ گئیں۔ اب خواہشات سے بڑھ کر ضروریات پر نظر ہوتی۔ اس واقعے کو تقریباً چھ سات سال گزر گئے، شعور میں پختگی آگئی تھی۔
اس سال عید الاضحیٰ آئی تو زیور کی وجہ سے عالیہ صاحب نصاب تو تھی مگر انکے پاس قربانی کرنے کے لیے کوئی بندوبست نہیں تھا۔ شوہر کی مالی حالت بھی اس وقت اچھی نہ تھی۔ اسکے پاس سونے کی لاکٹ چین تھی جو اسکی امی نے اسے جہیز میں دی تھی اور عالیہ کو بہت عزیز تھی۔ بہت شوق سے اسے پہنا کرتی تھی اور امی کی وفات کے بعد تو اور بھی زیادہ محبوب ھو گئ یتھی آخرکو وہ اس کی مرحومہ ماں کی نشانی تھی۔
دل میں خیال آیا اس کا لاکٹ بیچ کر قربانی کر لینی چاہئے۔ مگر دل بار بار اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا اور ارادہ کمزور پڑ جاتا۔ مگر ضمیر کہتا کیا قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام ہے؟ قربانی کی اصل روح تو اپنی محبوب چیز کو اللہ کے لیے قربان کر دینے کا نام ہے۔ حضرت ابراھیم علیہ اسلام تو اپنے لخت جگر کو اللہ کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور ہم ایک معمولی اور فانی زیور بھی نہ دے سکیں اسکی راہ میں؟
بار بار یہ خیال دل میں کچوکے لگاتا رہا اور پھر اس نے لاکٹ کو بیچ کر قربانی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ آخر اس نے وہ لاکٹ بیچ دیا اور بڑے جذبے کے ساتھ قربانی کی۔
اور عید والے دن اس کی خوشی کا جو عالم تھا وہ بہت بڑھ کر تھا ان تمام قربانیوں سے جو وہ ہر سال کرتی تھی۔ آج اس نے قربانی کی اصل روح کو پایا تھا۔ خواہشات، جذبات اور اپنی محبوب ترین چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کر دینے کا سرور
اسی کا دیا ہوا اسی کے لیے خرچ کر دینے کا کیسا سرور ہے۔ یہ تو عالیہ نے آج جانا تھا۔
اور آج بھی اس کے پاس عید پر پہننے کے لیے نیا جوڑا نہیں تھا مگر ہزار جوڑوں کی خوشی سے بڑھ کر وہ خوش تھی۔اور وہ آیت اسکے ذہن میں گونج رہی تھی، گویا جیسے آج ہی نازل ہوئی۔
*ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین*
بیشک میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا سب میرے اللہ کے لئے ھے جو جہانوں کا پروردگار ہے۔