"تو پھر کیا کریں ؟" میں نے پوچھا۔
"ڈاکٹر کہتی ہے کہ اگر آپ انتظار کرنا چاہتے ہیں تو ٢٤ گھنٹے انتظار کر لیں ، لیکن چوبیس گھنٹے بعد بھی آپریٹ
ہی کرنا ہوگا ۔" وہ بولے
"ٹھیک ہے آپ پیپرز سائن کر دیں ، جب آپریٹ ہی کرنا ہے تو ابھی کیوں نہیں ۔" میں نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں سوچ کر بہت مضبوط لہجے میں ان کو کہہ دیا۔
"دیکھ لو فاطمہ ، کچھ ہو نہ جاےٴ۔ " خان صاحب بولے۔
" کچھ نہیں ہو گا ، الله ہے نا ! بس آپ سائن کریں ۔"
" حد ہے تمہیں ذرا بھی پریشانی نہیں ہے فاطمہ ۔"
"بالکل بھی نہیں ہے الحمدللہ !‘‘ میں نے خان صاحب کی بات کا جواب دیا اور آنکھیں بند کر کے درود شریف پڑھنے لگی ۔
تھوڑی دیر بعد مجھے بہت ہی بڑے اور جدید آپریشن روم میں شفٹ کیا گیا ۔ وہاں پہلے ہی آپریشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں ، مجھے سٹریچر پر لٹایا گیا، آپریشن گاؤن پہنایا ۔ بلڈ پریشر مشین لگائی ۔ الرجک انجکشن پہلے ہی چیک کر چکی تھی ۔
جب تک آپریشن شروع نہیں ہوا ڈاکٹر ایمن میرے سرہانے ہی کھڑی رہی ۔ کبھی میرے ہاتھ دبائے ، کبھی پاؤں دبائے ، کبھی دعائیں پڑھے۔
پھر ایک دم سے دروازہ کھلا اور ایک میل ڈاکٹر آ گیا ، افوہ ! توبہ !! یہ کون آ گیا ہے یار ا ، یہ آپریٹ کرے گا مجھے ؟ لیکن کیوں بھئی، میں ایمن کی پیشنٹ ہوں نا ، میں نے نہیں کروانا مرد سے آپریٹ ، میں خود سے لڑ رہی تھی۔
پھر ایک نرس کو بلا کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ آپ کو بے ہوش کرے گا جسٹ ، تب میں نے سکھ کا سانس لیا الحمدللہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھے دھڑ کے سن ہونے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر ایمن کا سارا سٹاف اٹینشن ہو گیا ، جیسے قصائی بکرا ذبح کرنے کے لئے چھری اٹھاتا ہے تو ہمارے پاکستانی بھائی فٹافٹ گھیرا ڈال کے کھڑے ہوجاتے ہیں، بس جی کچھ ایسا منظر بن گیا۔
" Are you ok? Fatima?"
ڈاکٹر ایمن مجھ سے زیادہ پریشان تھی ، لیکن میں الله کے فضل سے با لکل ریلکس تھی ۔
’’ الحمد للہ!‘‘
میں نے ایمن کو جواب دیا اور درورد شریف پڑھنے لگ گئی۔
بس پھر کیا تھا ، ڈاکٹر ایمن کی پھرتیاں اور کچھ ہی دیر میں عبدا لاحد خان اس دنیا میں تشریف لا چکے تھے الحمدللہ! میں نے شکر ادا کیا۔
ہیں یہ رویا کیوں نہیں ؟ اور مجھے دکھا ہی دیتے۔۔
سوچوں کا سمندر جاری تھا کہ عبدل کے رونے کی آواز آئی ، ہائے الله جی ! آپ بہت اچھے ہیں ! لاکھ لاکھ شکر!
ڈاکٹر ایمن نے مجھے تسلی دی اور باہر چلی گئی، اب بڑی بڑی سب نرسیں مجھے مبارک بعد دینے لگیں۔
مبروک میڈم مبرووک !!
جزاک الله میں نے ہنس کر کہا
ایک نرس نے مجھے مخاطب کرتے ہوے کہا ۔ میڈم آپ کا بے بی بہت smallہے۔ ‘‘
" او بہن جی میری گل سنو ! تمہارے ہاں کیا چھے فٹ کے بچے پیدا ہوتے ہیں ؟ سمال سمال ! جدھر دیکھو سب یہی کہ رہے ہیں۔ حد ہے ویسے۔ " میں جل کر سوچ رہی تھی حالانکہ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ بے بی کچھ ویک ہے۔ ڈاکٹر نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ لیکن اس وقت تو small جیسے میری چھیڑ ہی بن گئی تھی۔ خیر ! سٹاف بہت ہنس مکھ اور فرینڈلی تھا۔ سب نرسیں میرے سے ہنسی مذاق کرتی رہیں اور میں مسکراتی رہی۔ درد کا احساس ہی نہ ہوا۔
خیر کچھ دیر بعد مجھے روم میں شفٹ کر دیا گیا عبدا لا حد کو نرس صاف ستھرا کر کے لے گئی تھی ۔اس کے مختلف ٹیسٹ ہوئے، اور وہ مجھ سے پہلے ہی روم میں تھا مجھے سٹریچر سے بیڈ پر شفٹ کیا گیا۔
" یار مجھے بے بی دکھا دو وو۔۔! " جیسے ہی مجھے (انڈین ہمسائی ) سمیہ نظر آئی میں نے نعرہ مارا ۔ وہ ہنسنے لگی " تمہارا آپریشن ہوا ہے ،با لکل نہیں لگتا ، دیکھو ذرا کیسے پر جوش ہو رہی ہے ۔" وہ خوشی اور حیرانی سے بولی۔
" ہاں تو اور کیا ، میں اب ماما بن گئی ہوں نا ، الحمدللہ!‘‘ میں نے سمیہ کو جواب دیا اور ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے چھوٹو سا پارو سا عبدل اپنے بازو پر رکھا ۔
" ہائے اتنا پیارا اور اتنا پنک ۔۔ ما شاء الله ہائے اس کی تو صرف تین پلکیں ہیں، دونوں آنکھوں پر ۔کیوٹووووو۔۔۔‘‘
میں نے تفصیلی جائزہ ہی تو لے لیا اس کا۔ پھر فیڈ کروا نے میں سمیہ نے مدد کی۔
ایک رات ہسپتال کے روم میں بہت مشکل سے گزارنے کے بعد میں اگلی رات اپنے گھر آ گئی تھی ۔ جی جناب ! اور وہ بھی اپنے قدم پر چل کر ، صحیح سلامت۔ الحمدللہ
تو یہ تھی عبدل کے پیدا ہونے کی داستان ۔اب عبدل ما شا الله سے سات ماہ کا ہو چکا ہے ۔ اور ہاں ! معاف کرنا بہنو میں نے اپنا تعارف تو کروایا ہی نہیں۔
مجھے فاطمہ کہتے ہیں ۔پاکستانی ہوں Be Proudوالی ! ہی ہی ہی ۔۔۔ یقیناَََ آپ بھی ہوں گی ۔شادی کے دو ماہ بعد ہی میں اپنے ہزبینڈ کے ساتھ سعودیہ شفٹ ہو گئی تھی ۔سعودیہ کے شہر ینبع ا لبہار میں ہماری رہائش ہے۔
چلئے جناب! ہم چلتے ہیں۔ ملاقات ہو گی اگلی شرارتوں سے بھرپور کہانی پر! بفضل تعالی بشرط زندگی۔ ہنستے رہیں مسکراتے رہیں۔ الله حافظ! رب راکھا!