شمارہ نمبر 22

سردیوں کا موسم اکثر بچوں کے لیے خاصی زحمت کا باعث بن جاتا ہے۔ نزلہ، زکام، گلے کی خراش، نمونیہ، بخار وغیرہ اس موسم کی دین ہیں ان سے بچائو کی تدابیر اختیار کرلیں تو آپ کے نونہال بیمار ہونے سے بچے رہیں گے۔
دراصل اپنی ناتواں قوت مدافعت کے باعث نوزائیدہ بچے موسمی سختی برداشت نہیں کر پاتے اور ماحول اور آب و ہوا کی تبدیلی سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ناسمجھی کے باعث انہیں احتیاطی تدابیر کا بھی زیادہ شعور نہیں ہوتا اور وہ نتائج سے بے پروا ہو کر اپنے کاموںمیں مگن رہتے ہیں، لہٰذا سردیوں میں ان کا متاثر ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
ایسے میں اکثر مائیں موسم کو الزام دیتی نظر آتی ہیں جو کہ نہایت عجیب امر ہے، کیوں کہ بچے تو ٹھہرے بچے، وہ کیوں کر موسم اور اس کے لیے احتیاطوں کو سمجھ سکتے ہیں؟ یہ کام تو ہے ہی سراسر ان کی ماؤں کا کہ انہیں احتیاط کرائیں۔ اگر سرد موسم کے شروع ہوتے ہی بچوں کو مناسب گرم کپڑے پہنائے جائیں۔

 

انہیں پانی میں کھیلنے سے دور رکھا جائے۔ ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھونے اور نہانے سے روکا جائے۔ چاکلیٹ، غیر معیاری ٹافیوں اور مٹھائیوں سے دور رکھا جائے تو بچے سینے کی جکڑن، سانس کی تکلیف، نزلے، گلے کی خرابی یا گلے کے غدود میں سوجن کی شکایت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

سردی کے موسم میں نوزائیدہ بچوں کے پائوں، سینے اور خاص طور پر سر کو گرم رہنا چاہیے۔ شیر خوار اور کم از کم پانچ برس تک کے بچوں کے سر اور سینے کو ڈھانپ کر رکھیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پانچ برس سے بڑے بچوں کو گرم کپڑے نہ پہنائے جائیں، اور ان کو سرد ہوا کے جھونکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے بلکہ احتیاط سب کے لیے ضروری ہے۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کی چالیس فیصد حرارت سر کے راستے داخل ہوتی ہے اس لیے محتاط رہیں۔ موسم کی سختی کے حساب سے بچوں کے سر پر اونی ٹوپی اور پائوں میں موزے پہنانے کے ساتھ ساتھ سینہ بند یا کوئی ہاف سوئٹر کپڑوں کے اندر پہنائیں۔ ہائی نیک سوئٹر پہنانا بھی مفید رہے گا، گرم کپڑے پہناتے وقت موسم کی شدت کا درست اندازہ کریں اور اس ہی حساب سے کپڑے پہنائیں۔ ایسا نہ ہو کہ موسم کی شدت سے زیادہ بھاری کپڑے پہنا دیے جائیں، جس سے بچہ گھبرا جائے۔
پانی کی بے احتیاطی سے عام طور پر بچوں کی قوت مدافعت کم زور پڑجاتی ہے اور وہ نزلے زکام اور نمونیے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نمونیے کی صورت میں ان کے پھیپھڑے بری طرح متاثر ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پسلیاں چلنے لگتی ہیں۔ تیز بخار ہو جاتا ہے اور بچہ سانس لینے میں دقت محسوس کرتا ہے۔
نمونیے کی صورت میں فوری طور پر معالج سے رجوع کیا جائے، کیوں کہ پاکستان میں بچوں کی اموات کی بڑی وجہ نمونیہ ہے جس کی وجہ سے سالانہ 19 فیصد بچے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنے بچوں کو پہلے ہی نمونیے سے بچائو کے ٹیکے لگوالیں۔ بہ حثیت ماں آپ کو اس بیماری کی علامات بھی معلوم ہونی چاہییں تا کہ بروقت تشخیص کی جاسکے۔
ماہرین کے مطابق جب بچہ کراہنا شروع کرے تو والدین کو چاہیے کہ فوری توجہ دیں، جب کہ سانس لینے میں سیٹی کی آواز نکلنا، پسلی چلنا، بچے کا نڈھال ہونا، بخار، نزلہ اور کھانسی کے ساتھ جھٹکے لگنا شدید نمونیے کی علامات ہیں، ایسی کیفیت میں ہنگامی بنیادوں پر مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں، اور اسے حرارت پہنچائیں۔ ضرورت ہو تو کمرے میں انگھیٹی جلا لیں، لیکن یہ بھی دھیان رکھیں کہ کمرے میں ہوا کی آمدورفت میں رکاوٹ پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ اگر بچے کو پائوڈر کا دودھ دیا جا رہا ہے تو ہر بار بوتل کو گرم پانی سے اچھی طرح دھوئیں۔
سردی سے نارمل بخار ہونے کی صورت میں خود سے اینٹی بایوٹک دینے سے گریز کریں۔ بچے کو بخار سے سردی لگ رہی ہو اور وہ کانپنے لگے تو اسے روئی کا بنولہ نا بنائیں بلکہ ذرا ڈھیلے کپڑے پہنائیں اکثر مائیں بچوں کو بخار میں گرم کپڑوں سے سر سے پیر تک ڈھانپ دیتی ہیں جس سے بعض اوقات ان کی حرارت معمول سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ بخار کی صورت میں بچے کو سوپ اور یخنی دیں۔ وقفے وقفے سے بچے کا درجہ حرارت نوٹ کرتے رہیں اور بخار بڑھنے کی صورت میں معالج سے ضرور رجوع کریں۔
بچوں میں سردی کی وجہ سے نزلہ اور گلے میں خراش کی شکایت بھی ہوتی ہے۔ نزلہ بہ ظاہر معمولی نظر آتا ہے مگر اس کی وجہ سے ناک میں ورم کے باعث سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ زکام میں گرم پانی پینا مفید ہے۔ شیر خوار بچوں کو دودھ میں دو پیپل کے پتے، دو چھوہارے، چار کھجوریں ان میں سے کوئی ایک چیز دودھ میں ابال کر پلائیں۔ ادرک کا رس اور شہد مکس کر کے چٹائیں، گاجر پالک کا رس پلائیں، موسمی کا رس پلائیں، چنے ابال کر ان کا پانی پلائیں، سونٹھ اور گڑ پانی میں ڈال کر ابال لیں اور وقفے وقفے سے پلائیں جائفل کو پانی میں گھس کر شہد میں ملا کر صبح و شام چٹانے سے زکام وغیرہ کی شکایات دور ہوجائیں گی۔ ٹھوس غذا کھانے والے بچوں کو زکام میں گڑ اور سیاہ تل کے لڈو کھلائیں، آنولے کا مربہ دیں، چائے اور جوشاندہ پلائیں۔ منقہ، امرود اور کچا پیاز کھانے سے بھی زکام ٹھیک ہو جاتا ہے۔
بچوں کو سرسوں یا زیتون کے تیل کی مالش کر کے دھوپ میں لٹائیں یا بٹھائیں۔ مناسب احتیاط اور تدابیر اختیار کرکے ہم اپنے بچوں کو سردی کے امراض اور تکلیف سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بچے کے سینے کو ٹھنڈ لگ جانے کی صورت میں پرانی روئی گرم کرکے سینکیں، سینے پر تارپین کا تیل یا معیاری بام مالش کریں۔
نظام تنفس کی تکالیف کے سلسلے میں یہ بہت ضروری ہے کہ بچے کا پیٹ صاف رہے یعنی وہ قبض میں مبتلا نہ ہو اسے دور کرنے کے لیے دس دانے منقہ ایک دو خشک انجیر وغیرہ کا استعمال کافی ہوتا بچہ چھوٹا ہو تو کیسٹر آئل دینا بھی مفید ہوگا۔ نوزائیدہ بچے کو اجوائن اور ہرڑ گھس کر نیم گرم دودھ میں یا گھٹی کی صورت میں پلائیں۔
بچے کو خسرہ نکل آئے تو بارہ گرام خاکسیر ایک کپڑے میں باندھ کر ایک لیٹر پانی میں ڈبوئیں اور یہی پانی پلاتے رہیں۔ گلا خراب ہونے کی صورت میں ذرا سی گلیسرین شہد ایک کپ دودھ میں ملا کر پینے سے افاقہ ہوگا۔قبض کی صورت میں اسپغول پانی کے ساتھ پلائیں ۔
چھینکوں کی صورت میں روغن گل دو تین قطرے کان اور ناک میں ڈالیں۔ پسلی چلنے کی صورت میں بارہ گرام لہسن کچل کر اس کا پانی نکال لیں اور شہد میں مکس کر کے چٹائیں۔
چھوٹے بچوں کو کھانسی ہو تو چھوٹی الایچی پیس کر چٹا دیں ایک سیب پیس کر ایک صاف رومال میں رکھ کر اس کا پانی نچوڑ لیں اور اس میں تھوڑی سی مصری ملا کر صبح و شام پلائیں۔ ابلے ہوئے انڈے کی زردی اور اسے شہد میں ملا کر کھلائیں، اس عمل سے سخت سے سخت کھانسی میں بھی آرام آجائے گا۔ ادرک کے رس میں شہد ملا کر چٹائیں کھانسی دور ہو جائے گی۔