آزادی کی تحریک تو مدتوں سے چل رہی تھی اور اس میں ہر قسم کے خیال کے لوگ خاص طور پر مسلمانوں نےبڑا کردار ادا کیا۔لیکن اللہ نے اس کی شکل پیدا فرمائی کہ پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کو الگ خطہ عطا فرمایا۔یہ مدتوں کی آرزو کی ایک طرح سے تکمیل تھی۔کیونکہ مغلیہ سلطنت کے ادوار کے بعد جب تک انگریز نہیں آئے تھے تو پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔تو اصل میں یہ ہوا کہ جن سے حکومت چھینی گئی انہیں کو واپس دےدی گئی۔لیکن ہوا یہ کہ انگریزوں نے جاتے وقت کہا کہ حکومت اس طرح دی جائے کہ ہندو کہ اکثریت ہو۔تو یہ مطالبہ سامنے آیا اور قائد اعظم نے اس کو آگے بڑھایا ۔اگرچہ تصور اس کا پہلے سے تھا۔لیکن واقعتا اس کا تصور سب سے پہلے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے پیش کیا تھا۔
اور مولانا عبدالماجد نے اپنی کتاب حکیم الامت میں لکھا ہےکہ بعد میں مسلم لیگ کے نعرے سنے لیکن سب سے پہلے یہ بات حکیم الامت سے سنی تھی اور وہ یہ تھی کہ دل چاہتا ہے کہ ہندوستان میں یا دنیا کے کسی حصہ میں کوئی ایسی ریاست قائم ہو جو اسلام کی بنیاد پر قائم کی گئی ہو اور اس میں احکام شرعی نافذ کی جائے۔تو بعد میں یہی نعرہ لے کر قائد اعظم کھڑے ہوئے۔ اس میں چونکہ مطالبہ درست تھا تو علماء کرام کی بڑی تعداد مولانا اشرف علی تھانوں اور علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب کی قیادت میں اس تحریک میں شامل ہوئے۔مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں ۔"ہم بچے تھے جب یہ نعرے سنا کرتے تھے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ گلی گلی یہ نعرہ ہوتا تھا۔آج اس تحریک کے دیکھنے والے بہت کم رہ گئے۔اس وقت کےمسلمانوں کے اندر جوش تھا وہ اس نعرے کو لے کر بڑھ رہے تھے تو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے پاکستان قائم فرما دیا ۔اور اس نعرے کے مقصد پریہ ملک قائم ہوا اور شاید اس دور میں یہ واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام قائم ہوئی ورنہ عام طور پر ریاست قومیتوں کے بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔اللہ کا بڑا انعام ہے ایسی ریاست دی کہ جس میں اللہ نے ہر طرح کے وسائل پیدا فرمائے۔ہر طرح کی زمینیں یہاں موجود ہے۔دریا ،سمندر ،ریگستان سبزازار اس میں ہے۔ ہر طرح کی پیداوار اللہ تعالی نے اس میں عطا فرمائی لیکن ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے جتنی بڑی نعمت ہوتی ہے بندے پر اتنا ہی شکر واجب ہوتا ہے۔اور بڑی نعمت کی ناشکری کی تو وبال بھی بڑاسخت ہوتا ہے۔لہذا اصل بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہم اس مقصد کی طرف متوجہ ہوتے جس کے لئے پاکستان بنایا گیا،لیکن ہمارے اعمال یہ ہے کہ ہم مختلف نعروں کے پیچھے چل پڑے مختلف مقاصد حاصل کرنے کے لئے سرگرداں ہوگئے تو اس وجہ سے ابھی تک ہم اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے۔ اس کے باوجود الحمداللہ پاکستان موجودہ حالات میں اپنے رہنے والوں کے لئے بہت بڑی نعمت ہے اور ہر مسلمان کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ جب جشن آزادی مناتے ہیں اسوقت خاص طور پر یہ سوچے اگر فرض کرو پاکستان نہ بنتاتواس کا کیا حال ہو تا؟ وہ کہاں ہوتا؟ کس کی غلامی میں ہوتا؟ کیا صورتحال ہوتی؟
اللہ نے یہ نعمت عطا فرمائی تو اسکا شکریہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے احکامات کی اطاعت کی جائےاور پاکستان کو صحیح معنی میں پاکستان بنانے کے لئے ضروری یہ ہےکہ كل بنون إخوة (سارے مسلم بھائی بھائی ہیں)۔ لہذا یہ جوتعصبات ہیں چاہے لسانی ہوں،چاہے فرقہ وارانہ ،چاہے مسلکی ہو ں ان کو بالائے طاق رکھ کر صحیح معنی میں ایک ریاست بنانے کی جدوجہد کرے۔اگر ہم میں سے ہر ایک شخص اپنی زندگی اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق بنائے اور اس بات کی جدوجہد کرے کہ ہمارا معاشرہ بھی اسی مقصد کے تحت آگے چلے،تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالی اپنے فضل سے وہ خواب جو ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا اسکی تعبیر ہمارے سامنے آجائے۔ان شاء اللہ جوں جوں اس مقصد کی طرف قدم بڑھائیں گے تو اللہ کی مدد آئے گی۔ اب بھی اگر دوسرے ممالک کے ساتھ پاکستان کا موازنہ کیا جائےتوباوجود تمام خرابیوں کے الحمداللہ اب بھی بسا غنی ہے۔اب بھی اللہ کی رحمت سے دوسرے ممالک سے بہتر ہے۔اس کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر چلے گے تو ہمارے قدم بڑھتے جائیں گے۔مایوسی کی کوئی وجہ نہیں مایوسی پھیلانا بھی مسلمانوں کا شیوہ نہیں بلکہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ اگر کوئی خرابی ہے تو اسکو بہتر بنانے کی کوشش کرے اور آخری دم تک کرتا رہے ۔کوشش اللہ کی رضا کی خاطر ہو تو وہ کامیاب ہے باقی نتائج اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہے۔
اللہ تعالی پاکستان کے تمام مسلمانوں کو جشن آزادی منانے کے ساتھ اصل قرآن و سنت کی پیروی کرنے پر جشن منانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اور پاکستان کی تمام دشمنوں سے حفاظت فرمائیں ۔آمین !‘‘