شمارہ نمبر 21

رکن کی درجہ بندی: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
Kahani Kanton ky beej

بڑی عید تو جیسے تیسے گزر گئی۔ محرم کا مہینہ بھی اب گزرنے کو تھا۔ زرینہ خاتون کو اپنے فیصلے پر بار بار غور کرنا پڑتا تھا۔ ان کو بوڑھی ہڈیاں کام کی اجازت نہیں دیتی تھیں اور نازیہ کو انہیں نے خود کام چور بنا دیا تھا۔محمود صاحب آئے روز باتیں سنانے لگے تھے۔کبھی انہیں کپڑے میلے ملتے  کبھی جوتے گم ہو جاتے ۔ کبھی بازار کے نان  چنوں سے بد ہضمی ہو جاتی  اور کبھی  ہر جانب دھول مٹی دیکھ کر ان کا دل اچاٹ ہو جاتا۔ زرینہ خاتون نے دو بار کام والی لڑکی رکھی لیکن ان کی انتہا سے زیادہ صفائی پسند طبیعت کے سامنے کوئی بھی نہ ٹک سکی۔ کھانا وہ کسی کام والی سے بنوانے کے لیے تیار نہ تھیں اور خود بنانے کی ہمت جیسے ختم ہوتی جارہی تھی۔

اظہر آفس سے آتا تو دیر تک کمرے میں بند رہتا۔ کیا میں نے غلط کیا ہے؟ کیا مجھے اسے واپس بلالینا چاہیے؟ لیکن پھر اس کا شرعی پردہ؟ اس کا کیا کروں؟ اماں کیسے مانیں گی؟ یہاں پر آکرسوچوں کی سوئی اٹک جاتی۔ عبداللہ کی قلقاریاں رہ رہ کا یاد آتی تھیں۔ الماری کھولتا تو رنگین آنچل باہر لپک کر جیسے اس کا ہاتھ پکڑ لیتے۔ وہ کتنی ہی دیر الماری کے سامنے یونہی کھڑا رہتا۔

رات کھانے کی میز پر پھر محمود صاحب اورزرینہ بیگم میں جھڑپ ہو گئی۔ آج زرینہ بیگم کا بلڈ پریشر معمول سے زیادہ ہائی تھا۔ نازیہ شام کی کلاس لے کر مغرب سے کچھ ہی دیر پہلے پہنچی تھی۔ کھانا کون بناتا؟

’’آج بھی حلیم اور نان؟ زرینہ بیگم! مجھے میری شوگر اتنا نقصان نہیں دے رہی جتنا یہ باہر کے کھانے۔ ‘‘ وہ تلخی سے بولے اور پلیٹ واپس سرکا دی۔

’’اماں بجٹ کتنا بڑھ گیا ہے ۔نازیہ سے کہا کریں ناں۔ سادہ سی دال بھی تو بن سکتی ہے۔‘‘ اظہر بھی دبے دبے لفظوں میں بول پڑا۔

زرینہ بیگم  تلملا کر کھڑی ہو گئیں۔ ’’ہاں تو وہ پڑھائیاں کرے یا کام؟ کب سے سب کچھ میں ہی کیے جارہی ہوں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا میری صحت پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ یہاں تو سب کو اپنی پڑی ہے۔  میری اتنی ہمت نہیں ہے اب۔‘‘

’’نازیہ! نازیہ!‘‘ محمود حلق کے بل چلائے تھے۔

یونیورسٹی کے قریب سے لائے سیور کے چاول کھاتی نازیہ ہڑبڑا کر دھم دھم کرتی نیچے اتر آئی۔

’’جی ابا!‘‘

’’یہ کیا ہو رہا ہے؟ ایک ہانڈی نہیں بنا سکتی تم؟ یہ سیکھا ہے تم نے پڑھائی سے؟  مجھے ابھی اور اسی وقت گھر کا کھانا چاہیے۔ ورنہ میں  یہ گھر چھوڑ کر جارہا ہوں۔‘‘ محمود صاحب  اپنے آپ میں نہیں تھے۔ اس طرح تو وہ کبھی  کسی سے مخاطب نہیں ہوئے تھے۔

نازیہ کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اس نے مدد طلب نگاہوں سے ماں کو دیکھا۔ لیکن زرینہ بیگم نے اسے کچن میں جانے کا اشارہ کیا۔ وہ محمود صاحب کا نیا روپ دیکھ کر خود پریشان ہو گئی تھیں۔  پھر خود بھی اس کے پیچھے چلی آئیں۔ کرسی سنبھالے زرینہ بیگم نازیہ کو ہدایات دیتی رہیں۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں دال چاول سلاد اور چٹنی کے ساتھ تیار تھے۔ بہت دنوں بعد سبھی گھر والوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد جب محمود صاحب کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے نازیہ کو پیارکرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! گھر کی بہو نوکرانی نہیں ہوتی۔ اگر چہ تمھاری ماں نے تمھیں آج تک یہی سکھایا ہے لیکن بیٹا ! ایک دن تم نے بھی بہو بن کر اس گھر سے چلے جانا ہے۔ اور انسان جو کرتا ہے وہ بھرتا ہے۔ یہ اللہ کا انصاف ہے۔ گھر کے کاموں میں دلچسپی لینا سیکھو۔ عائشہ آجائے تو اس کی مدد کرو۔ سارا بوجھ اس پر مت ڈالو۔‘‘

نازیہ جو سر جھکائے سن رہی تھی،  عائشہ بھابھی کا نام سن کر چونکی۔

’’ابا ! عائشہ آرہی ہے کیا؟‘‘

’’ہاں! میں اسے کل خود لینے جارہا ہوں۔اظہر بھی ساتھ جائے گا۔‘‘

(جاری ہے)