گھر میں داخل ہوتے ہی شاہدہ بیگم کا پارہ ہائی ہوگیا۔
’’ زینب، زینب ادھر آؤ ۔‘‘
زینب بھاگتی ہوئی کچن سے آئی۔’’ جی اماں کیا ہوا۔۔۔ ؟‘‘
’’میں نے ہزار دفعہ منع کیا ہے تمہیں، سعد کو موبائل مت دیا کرو۔‘‘
’’اماں! پھر آخر میں کیا کروں۔ روتا ہے تنگ کرتا ہے کام نہیں کرنے دیتا۔ کیا اسی کو لےکر بیٹھی رہوں؟آپ تو صبح صبح چلی گئیں اپنی پرانی سہیلی سے ملنے۔ مجھے گھر کے سارے کام کرنے تھے اور سعد اتنا تنگ کررہا تھا تو میں نے موبائل پر کارٹون لگا کر دے دیے۔‘‘
’’ائے بس کرو بہو! دیکھے تمہارے کام۔ جب تک بچہ سو رہا ہوتا ہے تو خود ٹی وی، واٹس اپ اور فیس بک پر لگی رہتی ہو اور جب یہ اٹھ کر رونے لگتا ہے تو تمہیں گھر کے کام یاد آجاتے ہیں ۔ میں پوچھتی ہوں، تمہاری پڑھائی لکھائی کا کچھ فائدہ بھی ہے جب تمہیں اتنا ہی نہیں پتہ کہ بچوں کے لئے کس قدر نقصان دہ ہیں یہ سب چیزیں۔‘‘ اماں کے پاس تو پوری چارج شیٹ تیار تھی۔
’’اماں آپ کو بس موقع چاہیے مجھے باتیں سنانے کا اور کچھ نہیں بس۔ساری دنیا کے بچے اب موبائل، کمپیوٹر اور ٹیبلٹ سے ہی کھیلتے ہیں ۔‘‘ زینب تڑخ کر بولی۔
’’ہاں ہاں ساری دنیا کنوئیں میں جاگرے تو تم بھی چھلانگ لگادوگی؟ارے ہم نے بھی تو سات بچے پیدا کیے، موئے ہ اس وقت موبائل تھے، نہ یہ ٹی وی کا بھونپو چوبیس گھنٹے بجتا تھا۔جب بچے سوئے ہوئے ہوتے، ضروری کام اسی وقت نمٹا لیتے تھے جلدی جلدی۔ورنہ بچے ساتھ ساتھ ہی لگے رہتے تھے ہمارے تو۔سبزی بنا رہی ہوتی تو ساتھ دو چار پتے اور ڈنٹھل وغیرہ دھو کر یمنیٰ اور حمنہ کو بھی پکڑا دیتی تھی، وہ انہیں سے کھیلتی رہتیں تھیں ۔روٹی پکاتے وقت تنگ کرتیں تو ذرا سا آٹے کا پیڑہ پلیٹ میں رکھ کر ان کو بھی دے دیتی تھی۔ وہ تمہاری دونوں بڑی نندیں یونہی کھیل کھیل میں روٹی پکانا سیکھ گئی تھیں ۔محسن جب زیادہ ہی تنگ کرتا تو ایک چمچہ اور پلیٹ اس کو دے دیا کرتی تھی۔ وہ اسی کو بجا بجا کر کھیلتا رہتا تھا ۔جھاڑو دیتے ہوئے ایک چھوٹی جھاڑو اس کو بھی پکڑا دیا کرتی تھی۔ اگر ایسے خوشی خوشی محسن جھاڑو لگایا کرتا تھا، میں محبت سے اس کا ماتھا چوم لیا کرتی اور وہ اور جوش و خروش سے جھاڑو لگاتا۔تمہاری طرح مار پیٹ کر نہیں پالے ہم نے بچے۔ بڑی محبت اور خلوص سے پالے ہیں۔‘‘
’’اماں تو کیا میں محبت نہیں کرتی بچوں سے اور کیا میں مخلص نہیں بچوں کے ساتھ؟ ‘‘ زینب سچ مچ تڑپ اٹھی۔
’’تم بچوں کے ساتھ مخلص ہوتیں تو یہ کرتب دکھاتیں۔سولہ جماعتیں پڑھ کے بھی تمہیں بچے پالنے نہ آئے؟
’’اماں حد کرتی ہیں آپ !‘‘ زینب روہانسی ہو گئی۔
لیکن اماں آج بہت ناراض تھیں۔ وہ بولتی گئیں۔’’ارے چولہے میں ڈالو ایسی پڑھائی، جو انسان کو اپنا بھلا برا بھی نہ سکھا سکے۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ یہ سب چیزیں کتنی نقصان دہ ہیں معصوم بچوں کے لئے؟ آج ان سب چیزوں نے مل کر بچوں کو اپاہج بنا دیا ہے، ہلتے ہی نہیں ہیں موبائل اور کمپیوٹر کے سامنے سے، نہ دو گھڑی ماں باپ کے پاس بیٹھنے کا وقت ہے نہ کچھ دین دنیا کا خیال۔ اور ماؤں کو ذرا پروا نہیں ۔ بچے کس سمت میں جارہے ہیں۔ایک ہمارا زمانہ تھا میٹرک پاس کرتے ہی بابا نے شادی کردی اور ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کے ایسی کتابیں پڑھا کرتے جس سے دین اور دنیا دونوں سنور جائیں ۔میاں بھی راضی رہیں اور سسرال والے بھی خوش اور بچوں کی بھی بہتر پرورش کر سکیں۔اور ایک یہ آجکل کی مائیں ہیں، انہیں اپنے ہی چونچلوں سے فرصت نہیں ملتی۔ کبھی شاپنگ، کبھی درزی کی دکان کے چکر، کبھی پارلر کی حاضری، کبھی ٹی وی کے آگے بیٹھی ہیں تو کبھی موبائل میں سر دے رکھا ہے۔ ان ماؤں کے پاس فرصت کہاں ہےبچوں کی تربیت کرنے کی ۔‘‘
ابھی ساس بہو کی بحث جاری تھی کہ سعد پھر موبائل اٹھا کر امامہ کے جھولے کے پاس آکھڑا ہوا۔ امامہ بھی نیند سے جاگ چکی تھی اور سعد کے ہاتھ میں چمکتے موبائل کو دیکھ دیکھ کر ہمک رہی تھی۔ ہاتھ پیر چلا رہی تھی کہ بس کسی طرح یہ چیز اسے مل جائے ۔سعد موبائل کو کبھی اس کے قریب کرتا اور کبھی دور کر لیتا۔
زینب نے ساس کی توجہ اس طرف دلائی۔’’ یہ دیکھیں اماں، چھ سات ماہ کی بچی بھی اس کی شیدائی ہے۔ اب کیا کروں میں؟ کیسے بچاؤں انہیں ؟ ‘‘ وہ تھک کر اماں کے پاس ہی آبیٹھی۔
شاہدہ بیگم نے ایک نظر زینب کے چہرے کی طرف دیکھا جس پہ تھکن اور فکر کے آثار تھے۔ نگاہیں اپنی معصوم بچی پر جمی ہوئی تھیں، جو ٹکٹکی باندھ کر موبائل کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی اور خوب جوش میں ہاتھ پیر چلا رہی تھی۔
ایک لمحے کو ترس سا آیا شاہدہ بیگم کو۔ بہو صبح سے کاموں میں لگی ہے اور اب میں نے بھی اتنی باتیں سنا دیں۔
بھلا ایسے میں نصیحت کیا اثر کرے گی؟
تو پھر کیا کروں میں، کیسے احساس دلاؤں زینب کو اس کی غلطی کا؟ شاہدہ بیگم دل ہی دل میں سوچنے لگیں۔
?زینب کھانا لگانے کا پوچھنے لگی، انہوں نے منع کردیا پہلے میں ظہر کی نماز پڑھ لوں، پھر بعد میں کھانا کھاؤں گی۔کھانے سے فارغ ہوکر زینب، ساس کی دوا لیے انکے کمرے میں ہی آگئی۔
’’اماں دوا کھا لیجئے۔‘‘
شاہدہ بیگم کو سچ مچ زینب پر پیار آگیا۔ کچھ بھی ہے میری خدمت بہت کرتی ہے ۔ کھانا، کپڑے، دوا ہر چیز وقت پر تیار رکھتی ہے، بس نہ جانے بچوں کی طرف سے اتنی لاپروائی کیوں کرتی ہے؟
انہوں نے زینب کو اپنے پاس ہی بٹھا لیا۔’’بہو، کچھ دیر میرے پاس بیٹھو تم سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’جی اماں کہیے۔‘‘
’’بیٹا تمہیں احساس نہیں ہوتا بچوں کا ہر وقت موبائل سے لگے رہنا کتنا غلط ہے؟‘‘
’’احساس ہوتا ہے اماں، کیوں نہیں ہوتا؟ زینب بڑے دکھ سے بولی۔‘‘مگر چاروں طرف یہی سب کچھ چل رہا ہے تو بس میں بھی... ہر کسی کے بچے اب انہی چیزوں سے کھیلتے ہیں اماں۔‘‘
’’یہی تو ہمارا مسئلہ ہے زینب، ہم لوگ اندھادھند زمانے کے ساتھ بھاگتے ہیں نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر ۔ان چیزوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ کردیا ہے۔ تمہارے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں تم انہیں اس تباہی سے بچا سکتی ہو۔‘‘
’’مگر کیسے اماں؟‘‘
’’دیکھو بیٹا سب سے پہلے تو تم اس بات کو محسوس کرو کہ یہ بچے تمہارے ہاتھ میں کھلونا نہیں ہیں۔ یہ اللہ کی دی ہوئی امانت ہیں، جس کی پوچھ ہوگی تم سے ۔تم نے وہ حدیث نہیں سنی۔ تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ کل قیامت کے دن تم نے اللہ کو جواب دینا ہے کہ بچوں کی پرورش کا کیا حق ادا کیا؟ کیا دین اسلام کے مطابق ان کی پرورش کی یا چھوڑ دیا شتر بے مہار کی طرح ؟صرف اچھا کھلانا پلانا، پہنانا، اسکول بھیج دینا اور سیرو تفریح کروادینا ہی تو بچوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ انکو اچھے آداب سکھانا، بری باتوں سے بچانا اور صحیح اسلامی خطوط پر انکی تربیت کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے ۔ پہلے ذرا تم اپنی خبر لو نماز کبھی پڑھتی ہو کبھی نہیں پڑھتی، تلاوت کیے ہوئے تمہیں کتنے کتنے دن گزر جاتے ہیں۔ ٹی وی کا ہر ڈرامہ دیکھنا تمہارے لئے ضروری ہے، جب تم خود ہی اللہ کی نافرمانی کروگی تو بچے کیسے تمہارے فرمانبردار بنیں گے بھلا؟ کیسے بچاؤگی تم انہیں زمانے کی تلخیوں سے؟ فتنہ، فساد اور بے حیائی کی جو آگ سوشل میڈیا کے ذریعے چاروں طرف لگی ہے، کیسے بچاؤگی تم اس سے ان معصوم پھولوں کو اگر تم نے انہیں اپنے دین کے ساتھ نہ جوڑا تو یہ تباہ ہوجائیں گے زینب۔‘‘
’’بچے ماں باپ کو جیسا کرتے دیکھتے ہیں، ویسا ہی خود کرتے ہیں ۔تم باقاعدگی سے نماز پنجگانہ پڑھا کرو، قرآن مجید کی روزانہ تلاوت کیا کرو، گناہوں سے بچا کرو اور بچوں کے لئے خوب نیکی اور ہدایت کی دعا مانگا کرو۔ تمہیں پتہ ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بچپن میں آنکھیں خراب ہوگئیں اور وہ اندھے ہوگئے۔ ہر طرف سے ڈاکٹروں نے جواب دیدیا کہ اب انکی آنکھیں ٹھیک نہیں ہوسکتیں۔ تو انکی والدہ کو اس قدر صدمہ ہوا اور انھوں نے تہجد میں ایسے گڑگڑا کر اور یقین سے دعا مانگی کہ صبح انکا بیٹا اٹھا تو بینائی واپس آچکی تھی۔ایک وہ مائیں تھیں کہ اندھوں کو آنکھیں دلوا دیا کرتی تھیں اور ایک آج کی مائیں ہیں۔ اچھے بھلے بچوں کو ٹیوی، موبائل اور کمپیوٹر کی اسکرین کے سامنے بٹھا بٹھا کر خود اپنے بچوں کو اندھا کرنے کا سامان کررہی ہیں۔اگر تم چاہو تو ابھی بھی سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے زینب۔‘‘
’’مگر کیسے اماں؟ کیا میرے نماز پڑھنے سے یہ موبائل سے کھیلنا چھوڑ دینگے؟‘‘
’’ہاں زینب، جب تم اپنے رب کی فرمانبرداری کروگی، گناہوں سے بچوگی تو یہ بچے بھی تمہاری بات مانیں گے ۔ تم انہیں روکو گی تو یہ ضرور رک جائیں گے ۔ اس کے علاوہ بھی تم دوسری تدابیر اختیار کرو۔دیکھو امامہ ابھی بہت چھوٹی ہے اس کے قریب تو تم بالکل بھی موبائل لےکر نہ بیٹھا کرو۔ اس کے لئے تو بس اتنا ہی کرنا کافی ہے ۔اور سعد پر تمہیں تھوڑی محنت کرنی پڑے گی۔ تم اس کی توجہ دوسری طرف دلاؤ۔ موبائل کو تم خود کم سے کم استعمال کرو۔ بچوں کی خاطر تمہیں یہ قربانی دینی ہوگی۔ فالتو ویڈیوز اور گیمز وغیرہ ڈیلیٹ کردو، جب اسے اپنی پسند کی چیزیں اس میں نہیں ملیں گی تو خود ہی دلچسپی کم ہوتی جائے گی۔ اور سعد کے لئے کچھ ایسے کھلونے لے آؤ جس سے اس میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا ہو، بلاکس خرید دو تاکہ وہ مختلف عمارتیں بناتا رہے، بیٹ بال سے کھلایا کرو، واٹر کلر لادو اور چھوٹے چھوٹے پتھر دھو کر دیدو اسے کہ ان پر کلر کیا کرے، اور پھر اس پر اس کو خوب شاباش دو۔محسن سے کہو شام کو تھوڑی دیر کے لئے قریبی پارک میں لے جایا کرے سعد کو۔ بچوں کے ساتھ کھیلے گا، توجہ بٹ جائے گی۔ گھر کے کاموں کے دوران بھی اسے اپنے ساتھ ساتھ رکھا کرو، چھوٹا موٹا کام اس کو بھی دیدیا کرو۔اس کے علاوہ بچوں کو اپنے پاس لیکر بیٹھا کرو اچھی اچھی دین کی باتیں اور سبق آموز قصے سنایا کرو۔ بچے کا ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ہے، اس پر جو بھی لکھو گے وہ اسی کو پڑھے گا، اسی کے مطابق چلے گا۔
زینب بہت گہری سوچ میں تھی۔
’’ہاں مشکلیں بھی جھیلنا سیکھو، انہی آسانیوں کی خاطر تو مائیں آج بڑے آرام سے بچوں کو موبائل اور کمپیوٹر اسکرین کا عادی بنادیتی ہیں اور خود مزے سے اپنے کاموں میں لگی رہتی ہیں، یا اپنے دلچسپ مشاغل میں ۔ بھلا بتاؤ تو سہی کون ہے جو چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں موبائل پکڑا پکڑا کر خوش ہوتے ہیں، یہ انکے ماں باپ ہی ہوتے ہیں ۔شروع سے ہی ان چیزوں سے بچوں کو دور رکھا جائے تو کیوں ایسی نوبت آئے بھلااگر دینا ہی ہے تو بچوں کو سمجھا دو بس تھوڑی سی دیر کے لئے ملے گا، کیونکہ یہ آپکی نہیں، امی ابو کے کام کی چیز ہے ۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں اماں! میں ابان شاء اللہ بھرپور توجہ دونگی اپنے بچوں کو، یہی تو میری دنیا کی رونق اور آخرت کا سرمایہ ہیں، میں انہیں کسی صورت ضائع نہیں ہونے دونگی، چاہے مجھے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘