Al Hadith

’’زری بیٹا! آپ بوا جی کی بات کیوں نہیں سن رہیں؟‘‘

شمائلہ بیگم کافی متفکر   نظر آرہی تھیں۔ زری کی بد تمیزی اور ضد یں بڑھتی جارہی تھیں۔یہ سب انکی سمجھ سے بالا تر تھا۔

’’مما آپ کو  میرے بارے میں  کچھ نہیں معلوم نہ ہی آپ کے پاس اتنا وقت ہے۔ بس مجھے  نہیں پسند۔ اس سے آگے کچھ نہیں سننا۔‘‘ زری نروٹھے پن  کےساتھ بولی۔

’’بوا جی ! ابھی کہ ابھی ایک گلاس دودھ اور میری پسند کا آملیٹ ، ٹوسٹ کے ساتھ میرے روم میں لائیں۔ اب میں وہیں ناشتہ کروں گی۔سارا موڈ آف کر دیا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑی ہو ئی۔

 

دھڑام!دھڑام!!  دو تین پلیٹیں زمین بوس ہوچکی تھیں۔  وہ تیز قدموں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

یہ منظر دیکھ کرشمائلہ بیگم کا تو بی پی ہائی ہونے لگا۔

کافی دیر وہ یونہی گم سم بیٹھی رہیں۔  اچانک زبیر صاحب کے پکارنے سے چونکیں اور ہوں ہاں کر کے پھر خاموش ہو گئیں۔ زبیر صاحب کچھ دیر پہلے ہی ڈائننگ روم میں  آئے تھے۔

’’بیگم سب خیریت ہے؟ ‘‘

شمائلہ بیگم پھوٹ پھوٹ کے رودیں۔ کچھ دیر دل ہلکا کرنے کے بعدوہ رندھی  ہوئی آواز سے سب کچھ بتاتی گئیں۔

زبیر صاحب نے انھیں چپ کرانے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ چاہ رہے تھے کہ ان کا دل ہلکا ہوجائے۔وہ دونوں بازوباندھے پورے انہماک سے اپنی بیگم کی تمام باتیں سن رہے تھے۔انکے چہرے پہ اک رنگ آتا اور اک جاتا گیا۔ تمام تفصیل سننے کےبعد وہ بس ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گئے۔

’’بیگم اتنا سب ہوتا رہا اور آپ نے مجھے کچھ بتانا بھی ضروری نہ سمجھا۔  بتایا بھی تو جب پانی سر سے اوپر ہوگیا۔‘‘

شمائلہ بیگم آنسو  پونچھتے ہوئے بولیں۔

’’کیا بتاتی؟ آپ بزنس میٹنگز میں ہی اتنے مصروف تھے۔کل ہی تو آپ سنگا پور سے آئے ہیں۔ پھر میں نے  خود ہر طریقہ آزما کے دیکھ لیا مگر زری پہ کوئی  اثر نہیں ہوا۔ کوئی بھی جو زری کو دیکھتا ہے یقین ہی نہیں کرسکتا کہ یہ وہ ہی  پرانی والی زری  ہے۔ابھی آٹھویں جماعت میں ہے تو اسکا دماغ آسمانوں پہ پہنچ گیا  ہے۔ بڑی ہوگی تو پتہ نہیں کیا حال کرے گی؟اماں جان کی ڈیتھ کے بعد سے پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے اسے ۔  اک بات نہیں سنتی میری کوئی کہنانہیں مانتی۔ منہ زور اتنی ہوگئی ہے کہ بڑوں چھوٹوں کا لحاظ ادب سب بھول چکی۔ میرا تو بی پی ہائی ہورہا ہے۔آخر کیا کروں اس کا!‘‘

زبیر صاحب خاموشی سے  بیگم کی  باتیں  بھی سن رہے تھے۔

"بیگم اسکا اب اک ہی حل ہے ۔ زونیر کی طرح اس سےبھی بور ڈنگ بھیج دو ۔چند ماہ وہاں گزارے گی تو خود بخود ٹھیک ہونے لگے گی۔‘‘زبیر صاحب نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے مشورہ دیا۔

شمائلہ بیگم بھی چاہتی تو یہی تھیں مگر اماں جان یعنی اپنی ساس مرحومہ  سے کیا ہوا وعدہ آڑے آگیا۔

’’ہم ایسا نہیں کرسکتے۔یاد ہے آپکو اماں جان سے کیا ہوا وعدہ کہ چاہے جو بھی ہوجائے میں زری کو زونیر کی طرح کبھی بورڈنگ نھیں بھیجوں گی۔‘‘

زبیر صاحب ناشتہ مکمل کرچکےتھے نیپکن سے منہ اور ہاتھ صاف کئے اور آفس جانے کیلئے کھڑے ہوگئے۔

’’پھر بیگم اسکو اسکے حال پہ چھوڑ دو۔ خاموشی اختیار کرو۔ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

شمائلہ بیگم ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئیں۔

***********

زرین جسےسب پیار سے زری کہتے تھے، نے جب سے ہوش سنبھالا تھا،  خود کو دادی جان کی بانہوں میں پایا تھا۔وہ ہر وقت زری کے ساتھ مصروف رہتیں۔  جیسے اس میں ان کی جان بستی ہو۔ زونیر بھی ان سے لگا رہتا۔ دونوں کی پرورش جیسے انہوں نے ایک فر ض سمجھ لی تھی۔

زری کی ماما اک نامور غیر سرکاری اسکول کی پرنسپل تھیں پھر انکا سوشل سرکل کافی وسیع تھا۔ آئے  روز وہ سوشل کام میں اس قدر مصروف ہوجاتی تھیں کہ بچوں کیلئے وقت نہ نکال پاتیں۔انھوں نے بوا جی کو رکھ لیا تھا جو بچوں کے تمام امور دیکھتی تھیں مگر اماں جان اس کے سخت خالاف تھیں ۔بوا جی سے بس وہ صفائی دھلائی والے کام ہی کرواتیں ۔ بچوں کے سب کام وہ خود کرتی تھیں۔ تبھی تو بچے ان سے اس قدر مانوس ہوچکے تھےکہ ذرا بھی ان سے دوری  برداشت  نہ کرپاتے۔

زبیر صاحب اک معروف بزنس مین اور بہت کامیاب شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی بھی سرگرمیاں اتنی زیادہ تھیں کہ زیادہ تر وقت ان کا بیرون ملک میں ہی گزرتااور وہ بچوں کو  مہینوں دیکھ نہ پاتے۔

ایسے میں اماں جان ہی  وہ واحد نرم اور شفیق  ہستی ثابت ہوئیں جنھوں  نے بچوں سے مثالی محبت کی۔ انھیں ماں باپ کی محبت کی محرومی کا احساس نہ ہونے دیا۔زریں اور زونیر  بھی ان پہ جان چھڑکتے تھے۔

 (جاری ہے)