شمارہ نمبر 21

Ap sey kuch kehna hy

’’ساجد اٹھیں  جلدی کریں ، اف  جلدی کریں ، اٹھیں مجھے ہسپتال  لے کر  جائیں۔ فون کریں  سعید کو جلدی  !‘‘

میں  نے اپنے میاں   کو ہلا ہلا کر جگایا  کہ  ما شاء الله  سے  بہت ہی  پکی نیند  فرماتے  ہیں  ۔

’’اچھا اچھا  کرتا ہوں فون ، تم  بیگ نکالو عبایا پہنو۔" وہ ہڑبڑا کر اٹھتے ہوئے بولے۔ تکیے کے نیچے سے موبائل نکالا۔

"نمبر  کدھر  ہے  ؟ کس کو بلانا   تھا  سعیدکو؟ سعید کدھر ہے ؟؟؟ " ساجد  بوکھلاہٹ  میں  با لکل  ہی غائب  دماغ  ہو  چکے تھے۔

  ’’مجھے  دیں موبائل  !‘‘

میں نے  ان  کے ہاتھ سے موبائل  چھین کر ان کو نمبر ڈھونڈ کر دیا  کیونکہ گڑبڑاہٹ میں وہ میرے سے دو ہاتھ آگے نکل جایا کرتے ہیں ۔

’’یہ لیں نمبر  اور  میں  چینج  کر کے  عبایا پہنتی ہوں۔‘‘

’’جلدی  کرنا...! ‘‘ پیچھے  سے انہوں نے آواز دی  مجھے۔

 

’’  اچھا اچھا  صحیح  ہے  آپ  سعیدمصری  کو تو بلائیں۔  پتہ  نہیں گاڑی لاتے کتنا وقت  لگے گا ۔‘‘

 میں نے  اس مشکل  صورت  حال  میں بھی اپنی تقریر جاری  رکھی۔   واش روم  سے نکلتے  ہی گاڑی  کا ہارن سنائی دیا ۔شکر ہے سعید مصری  وقت پر آ گیا ہے۔   خیر دیر  سے  بھی آتا  تو میں نے کیا کر لینا  تھا! افوہ!  یہ میں کیا سوچ رہی ہوں  حد ہے بھئی میں نے اپنے آپ  کو جی بھر کر کوسا۔

’’فاتی  درود پڑھنا  جب  مشکل ہوئی    اور سورہ مریم  تو روز پڑھا کرو ۔‘‘ فائزہ میری بہن  کی آواز  میرے کانوں  میں گونجی۔ امی جی کی بے طرح یاد آئی تھی اس وقت۔ میسج کر دیا تھا۔ مجھے پتہ تھا وہ بھی اس وقت جائے نماز پر بیٹھی دعائیں مانگ رہی ہوں گی۔میں نے اپنے آپ کو ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار  کیااور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ 

جلد ہی ہم  ینبع  البحارکے بڑے ہسپتال میں  پہنچ گئے۔ہسپتال  پہنچتے  ساتھ  ہی  خان صاحب (میاں جی) نے مجھے  وہیل چیئر پر   بٹھایا اور تیز  تیز  ڈاکٹر ایمن کے  روم تک لے گئے۔

 ڈاکٹر ایمن  مصری ڈاکٹر ہیں، بہت  ہی خوبصورت  اور انتہائی  نرم مزاج۔  خیر تو  میں وہیل  چیئر کے  جھولے کھاتی ان  کے روم تک پہنچی ۔  آگے ڈاکٹر کی فلپائنی نرس  نے روک لیا۔    خان صاحب اس  کو نہ جانے کیا سمجھانے  میں لگے ہوئے  تھے  اور میں دل  میں درود پاک پڑھ رہی تھی  ۔

 نر س نے کوئیک ایکشن  لیا  اور فوراًسے دروازہ کھول کرڈاکٹر ایمن  کو بتایا ۔وہ اپنے پاس بیٹھی  مریضہ کو  بھول بھال کر فورا  ًمیری طرف بڑھی  اور اپنی نرس کو عربی میں کچھ کہا۔

’’کچھ۔۔  کیا کہنا تھا۔   یہی  کہا ہو گا کہ بکرے کی ماں کب تک آخر خیر منائے  گی۔  کھی کھی کھی!‘‘ اس حالت میں بھی مجھے ہنسی آرہی تھی۔

فلپائنی نرس  نے مجھے سٹریچر  پر لٹایا ۔ڈاکٹر ایمن نے فوراً ہی مجھے چیک کیا  پھر خان  صاحب کو دیکھتے ہوئے  نہایت پریشانی سے فلپائنی نرس  سے کہا۔

  "!Get her to operation room quickly. Very quickly"

 یہ مجھےچیک  کرنے کے بعد اتنی مایوسی سے سر کیوں ہلا  رہی ہے " میں نے دل میں سوچا  کہیں  خدا نخواستہ  بےبی تو  ۔۔۔!  نہیں نہیں  الله جی  پلیز  مدد کریں۔‘‘

’’ڈاکٹر کہہ رہی  ہے کہ  آپریشن  روم میں شفٹ کریں۔‘‘ میں سوچوں میں گم تھی کہ خان صاحب  کی آواز آئی  ۔وہ میرے پاس آکر  کھڑے  ہوئے  ۔

’’مجھے سچ سچ بتائیں  بےبی زندہ  ہے  نا  پلیز  مجھے بتائیں  وہ ٹھیک ہے نا  ؟؟؟ ڈاکٹر  نے کیوں ایسے  مایوسی سے سر ہلایا  تھا  ابھی؟‘‘ میں نے پہلی باراند ر سےکچھ پریشانی محسوس کی۔

’’ہاں بےبی ٹھیک ہے فاطمہ،   کچھ نہیں ہوا ، بس  ابھی آپریٹ  کرے گی وہ ، سب ٹھیک ہے ۔‘‘ خان صاحب  مجھے اطمینان  دلاتے ہوئے  بولے  ۔

" اچھا ٹھیک ہے ۔ " میں نے  ان کو کم اور خود کو تسلی زیادہ  دی۔

فلپائنی نرس مجھے لفٹ تک لے کر گئی  اورلفٹ سےتیسرے  فلور  تک ۔ خان  صاحب  کا مصری دوست سعید   میرا بیگ  اٹھا   کے لفٹ کے پاس ہی کھڑا  تھا۔ بہت ہی زبردست  ہنسی آئی  ۔میں نے دل میں کہا۔’’سعید  بھائی  آپریشن  میرا ہے۔تسی کیوں ایڈا  و ڈا  مو نہہ پھلا ے کھلوتے  ہو ، Chill  مارو  جی!"

تیسرے فلور پر پہنچے  تو دیکھا کہ سارے دروازے بند ہیں ۔ نہ بندہ نہ بندے کی ذات ۔ کوئی بھی نہیں۔’’ ہائے  کہیں  میں  ہائی جیک  تو  نہیں ہو  گئی اس فلپائنی کے ہاتھوں !‘‘ میں نے ایک دم  بڑے ڈرامائی  انداز  میں سوچا ۔

نرس  نے روم کا دروازہ کھولا ۔ واش روم کی لائٹ  لگائی ۔’’ لو جی...   یہ کیا  بیڈ  پر بیڈ شیٹ ہی نہیں  ۔واہ  زبردست جی ی ی!‘‘ میں نے اندر ہی اندر  نعرہ ا مستانہ مارا۔

"I will get bed sheet n come back dont worry."

فلپائنی نرس  مجھے  تھپتھپا  کے بولی  اور  چلی گئی۔’’فلپائنی بہن جی  میرا جواب تو سنتی جاتی ۔‘‘  میں نے پیچھے سے اردو  میں کہا۔ اسے کون سا سمجھ  آنی  تھی ۔

اس  کی واپسی ڈھیر ساری چیزوں  اور ڈاکٹرایمن  کے ساتھ ہوئی ۔ ڈاکٹر ایمن  نے آتے ساتھ ہی ای  سی  جی   مشین  فکس کی ۔ میری  ای  سی  جی  اور بے بی کی  ای  سی  جی کی ریڈنگ  چیک کی ۔ تقریبا  ١٥ منٹ تک ۔ میں نے بہت بے تابی     سے پوچھا ۔

“Is he alive?”

“Yes. He is!”

ڈاکٹر ایمن خوشی سے بولی ۔

الحمدللہ ! ساتھ ہی میں نے  سکھ کا سانس لیا  اور ڈاکٹرایمن  کو دیکھ کر مسکرائی  ۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر مسکرائی ۔ پھر  اس  نے مجھے  عربی میں ڈھیر ساری تسلی دی  اور چلی گئی۔

"بے بی زندہ  ہے فاطمہ ، دیکھا تم ایسے ہی پریشان ہو رہی تھی ۔ "خان صاحب آتے ساتھ ہی بولے ، " جی جی الحمدللہ"  میں نے خوشی سے کہا۔

خان صاحب چلے گئے اور پانچ  منٹ بعد  ہی  واپس  آئے  ۔ بہت ہی  پریشان ۔ ’’ڈاکٹر کہہ رہی ہے  کہ ابھی اور اسی وقت آپریٹ  کرنا  ہو گا   ورنہ  بے بی یا  ماں   کوئی ایک  ہی  بچے  گا ۔کچھ complicationsہو گئی ہیں۔" خان صاحب تفصیل بتاتے  ہوئے  بہت گھبرا  رہے تھے  جبکہ  میں  اطمینان  سے سن رہی تھی۔ الله  کا فضل تھا  کہ مجھے  کوئی ڈر کوئی خوف  محسوس  ہی نہیں ہو رہا تھا۔  (جاری ہے)