14اَگست ۱۹۴۷ء کوپاکستان بن گیا۔بانئ پاکستان نے اس کمزور اورخطرات میں گھری ہوئی مملکت کومستحکم بنانے کے لیے سخت بیماری کی پروانہ کرتے ہوئے دن رات کام کیا،یہاں تک کہ ان کاوزن گھٹتے گھٹتے فقط ۸۰پونڈ رہ گیا۔ٹی بی نے انہیں نڈھال کردیااوروہ ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ء کووفات پاگئے۔ان کے جانشین لیاقت علی خان کے دورمیں مولاناشبیراحمد عثمانی مرحوم نے ملک کواسلامی دستورمہیاکرنے کے لیے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ تیار کی جس کااعلان اسمبلی میں کردیاگیا۔مگر عملاً اسلامی آئین نہ بن سکا۔اورلیاقت علی خان اکتوبر۱۹۵۱ء میں قتل کردیے گئے۔
اس کے بعد جنہیں حکومت ملی انہوں نے یہ تصورکرلیا کہ وہ اسلام کے نفاذ کے وعدے سے سرتابی کاحق رکھتے ہیں۔قوم کوبھروسہ تھاکہ ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد چند ماہ کے اندراند رحقیقی اسلامی آئین کی تشکیل ہوجائے گی۔انگریزی قانو ن کی جگہ عدالتوں میں اسلامی قوانین کانفاذ ہوجائے گامگر ایساکچھ بھی نہ ہوا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں اسلام کی جگہ صوبائیت نے لے لی اورمشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔
انتقالِ اقتدارکے لیے مغربی جمہوریت کے نظام کو من وعن قبول کرناہماری سب سے بڑی غلطی تھی ۔لازم تھا کہ ان سیاسی اصول وضوابط کونکال دیاجاتا جوکسی بھی قوم کوٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہیں۔انتخابات میں اُمیدوار ایسے پاکبازاوردیانت دار لوگوں کو بنایاجاتا جو علم ،شرافت اورخدمتِ خلق میں توممتاز ہوتے مگراقتدار تو کیا معمولی عہدوں کے بھی طلبگار نہ ہوتے۔ جدید جمہوریت کے کار آمد اور مفید عناصر کوسوچ بچار اورتحقیق کے بعداپنی صوابدیدپر لیا جاتا، قوم کو توڑنے والے اجزاء کو پھینک دیا جاتا۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کے آرٹیکل ۶۲،۶۳ کی ان شقوں کوجو امیدوار کی پاکبازی کی ضمانت فراہم کرتی ہیں(مگر ان کا نفاذ آج تک نہیں ہوا) کو قیامِ پاکستان کی ابتداء ہی سے عملاً نافذ کردیاجاتا۔اس طرح اسلامی شورائیت کاایک پاک اور صاف نظام فراہم ہوتاجوتدریجاً ملک کومثالی اسلامی معاشرے میں ڈھال دیتا۔
یہ بھی لازم تھاکہ ملک کوابتدائی سالوں ہی میں اسلامی نظامِ تعلیم مہیاکیاجاتا۔ اسکولوں اورکالجوں میں طلبہ واساتذہ کی وضع قطع اسلامی ہوتی،نصاب میں تفسیر،حدیث،فقہ ،سیرت اوراسلامی تاریخ کااچھاخاصا حصہ شامل ہوتا۔ذرائعِ ابلاغ کوفحاشی،عریانی ،نسوانی حسن کی نمائش،راگ رنگ اوررقص وسرود سے پاک رکھاجاتا۔یہ سب کچھ ابتدائی چند سالوں میں ہوجاتاتوپاکستان کی یہ گت نہ بنتی ۔
ہمارے حکمران یقیناان کوتاہیوں کے مجرم ہیں۔ اگرچہ بین الاقوامیمعاہدوں کے باعث خارجہ پالیسی سے متعلق بہت سے فیصلوں میں ہمارے حکمران آزاد نہیں رہے مگرانہیں جو اختیارات حاصل ہیں،ان کی رو سے وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔مگر کوئی کرناچاہے بھی تو!!
اگر جرمنی،جاپان اورچین محدود اختیارات پر مشتمل آزادی کو درست حکمت عملی کے ساتھ استعمال کرکے چندعشروں میں دنیا کی خوشحال،مضبوط اور صفِ اول کی قوموں میں شامل ہوسکتے ہیں تو پاکستان کی قیادت ان سے بڑھ کریہ اہداف حاصل کرسکتی تھی،بشرطیکہ ایمان،اخلاص،حکمت وبصیرت اور ایثار سے کام لیتے ہوئے ان تھک محنت کی جاتی ۔
اس وقت ۱۴اَگست ایسی حالت میں آیاہے کہ ملک ایک نئے سیاسی بحران سے گزررہاہے۔لوگ منتظر ہیں کہ دیکھئے پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتاہے۔۱۴اَگست ہمیں یاددہانی کرارہاہے کہ ہم اپنی سنگین غلطیوں کے اعادے سے باز آجائیں۔دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کونیک ہدایت دے اوراس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذکاخواب شرمندۂ تعبیر ہو۔بصورتِ دیگر ہم ۱۹۴۷ء کے شہداء کوبروزِ حشر منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں گے۔