’’میں آپ سے اتنے مہینوں  سے کہ رہی ہوں  کہ مدینہ  شریف  لے چلیں   اور آپ ہیں کہ  مان ہی نہیں رہے۔‘‘

 میں   نےخان صاحب سے منہ پھلا کر شکایت  کی ۔ اتنے مہینے  ہو گئے  تھے  مدینہ شریف گئے ، اب پھر سے دل بے  سکوں ہو رہا تھا۔

 دیکھا آپ بھی  حیران  ہوئے ناں ؟  جی جناب  تو آپ کی حیرانی  دور کیے دیتے ہیں  ذرا  صبر تو کریں ۔ بات یہ ہے کہ ہم سعودیہ کے شہر ینبع میں رہتے ہیں۔ یہا ں سے مدینہ اور مکہ  کچھ ہی گھنٹوں کے فاصلے پر ہیں اس لیے ہم دو تین  مہینے کے وقفے سے  مکہ  مدینہ شریف ہو آتے  ہیں۔  یقین  جانیں اس قدر سکون ملتا ہے  بیان سے باہر  ہے ۔

خاص طور  پر مدینہ شریف جا کر تو  ہر وقت  یہی احساس گھیرے رکھتا  ہے کہ ہم پیارے نبی حضرت محمد  صل الله علیہ وسلم  کی محبت و  شفقت  کے  سائے  میں آ گئے ہیں ۔ ہوا سے بھی زیادہ ہلکے پھلکے  ہو گئے ہیں ۔ یوں  محسوس ہوتا ہے کہ  جیسے  زندگی میں جیسے کوئی  پریشانی رہی ہی نہیں۔  مدینہ شریف کی ہواؤں میں اتنا سکون ہے  میں  اسے الفاظ میں  بیان نہیں کر پا رہی ہوں۔ جب آپ کو الله توفیق دیں گے  مدینہ شریف جانے کی  تب آپ کو میری باتیں یاد آئیں  گی ۔ آپ بھی اسی کیفیت سے ضرور  گزریں گی  جو میں نے پہلے بیان کی۔

’’ ایک  تو  تم ہر بات پر منہ پھلا لیتی ہو وہ جو میرا فلسطینی  سٹوڈنٹ ہے  اس کی  طرح  !‘‘ خان صاحب بے حد ہنستے  ہوئے بولے 

’’ ہائے !‘‘  میں تو چیخ ہی پڑی۔

’’  وہ تھرڈ گریڈ کا سٹوڈنٹ ... وہ چھوٹو سا نا ں؟؟ جس کی آپ  نے بات نہیں مانی  تھی اور وہ کلاس میں ہی  زمین پر لیٹ کر  رونے لگ گیا تھا ؟ ہونہہ !  میں وہ نہیں ہوں ۔‘‘  میں نے پہلے سے بھی زیادہ  منہ پھلا لیا ، بلکہ پھلا کے کپا  کر لیا  بھئی پھر اپنی  بات بھی تو منوانی  ہوتی ہے ناں! سمجھا کریں۔

’’اچھا ٹھیک ہے کچھ ارینجمنٹ  کرتا ہوں۔‘‘  میرا کپا منہ دیکھ کر  خان صاحب نے جلدی سے مجھے تسلی دی ۔

’’ یاہو  وو ! گڈ  ہو گیا  ۔مدینہ جائیں گے مدینہ جائیں گے۔  ان شاء الله  !‘‘ میں  بچوں کی طرح خوش ہوتی  کچن میں چل دی ۔ اب  آپ سے کیا چھپاؤں خوشی میں زیادہ بھوک لگنے لگتی ہے ناں!

شام  کو خان صاحب گھر  آئے   تو میں  نے مدینہ شریف جانے کا پوچھا۔

’’ ہاں جی کنفرم  ہی ہے ۔ اسکول کی بس لے کر جا رہی ہے  سب ایمپلائز  کو  ، مطلب جو  بھی جانا  چاہے ۔‘‘

’’ اور  قیام ؟ ‘ میں نے جلدی سے ان  کی بات کاٹی، جو کہ بہت بری بات  ہے  خیر !

’’ کہاں کا قیام بھئی، اسی  دن شام کو واپسی ہے محترمہ ، میں نوکری کرتا ہوں ، بادشاہ نہیں ہوں " خان صاحب تو بگڑ  ہی گئے ۔

’’ اچھا ناں ! میرا دل تھا کہ ویک اینڈ  مدینہ شریف  گزارتے چلیں خیر ! یہ بھی  بہت  خوشی کی بات ہے۔الحمدللہ! ‘‘

جمعہ  کی صبح چھے بجے  فی  مرد  اور خواتین ایمپلائز    کی بس  الگ الگ تیار کھڑی تھیں۔ ہم سب سے آخر میں اپنے فلیٹ سے نکلے  اور فیمیلز   کی بس میں سیٹ  نہیں ملی ۔

’’ اب کیا  کروں ؟ ‘‘ میں تو  بہت ہی پریشان ہو گئی۔

 ’’ کچھ نہیں ہوتا ، میرے ساتھ  میلز کی بس   میں ہی چلو ۔" خان صاحب بولے۔ ایک دو اور خواتین  بھی جگہ نہ ملنے کی وجہ سے مرد حضرات کی بس میں تھیں۔

  میں بہت ہچکچاتے  ہوئے  میلز کی بس میں بیٹھ گئی ۔ پردے میں تھی  اور  بس  کی آخری سیٹ پر  لیکن پھر بھی بہت الجھن محسوس ہو رہی تھی۔  دو گھنٹے کے بعد بس پٹرول  پمپ    پر رکی  تو ٹرانسپورٹ انچارج نے خان صاحب کو کہا  کہ فیملی  فی میلز کی بس میں بھیج دیں  ۔اسی بات پر تو تو میں میں  ہو گئی  اور خان صاحب نے مجھے نہیں بھیجا ، کیوں کہ  وہاں سیٹ  ہی نہیں تھی  ۔جنت البقیع کے پاس پہنچ کر  مرد حضرات  کی بس کا ٹائر پنکچر  ہو گیا تو مجھے مجبورا  خواتین  کی بس میں جانا پڑا ۔دونوں بسیں  آگے پیچھے  سفر کر رہی تھیں ، ایک رکی تو دوسری  بس اس  کو دیکھ کر رک چکی تھی۔

خیر میں ننھے عبدا  لا حد کو لے کر  فی میلز  بس میں آئی ۔ الجھن کوفت اور شرمندگی سے میرا برا حال تھا۔  چھوٹی سی ایک فولڈنگ سیٹ بچی تھی  اس پر دھپ  کر کے بیٹھ گئی۔

’’ کیا ہوا فاطمہ ؟‘‘  میری ہمسا ئی زائمہ  نے پوچھا ۔

اور پھر جناب مت پوچھیں۔ ٹرانسپورٹر سپر وائزر  کے خلاف چغلیوں اور کڑوی باتوں کا ایک طوفان تھا جو میرے منہ سے نکلا۔ میں شدید غصے کی حالت میں بھول ہی چکی تھی کہ  میں حرم کی حدود  میں ہوں ۔ زائمہ  مجھے  اتنے غصے میں دیکھ کر ڈر گئی  اور منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئی۔ الله کی بندی ، مجھے چپ  تو کرواتی ، سمجھاتی کہ حرم  کی  حدود میں ہو ، گالی مت دو ، لیکن خیر ! شاید  اس کو بھی خیال  نہ رہا ہو۔

’’فاطمہ بھابھی  کیسی ہیں ؟‘‘شرمین جو مجھ سے پچھلی  سیٹ پر تھی  ، بولی  ۔’’ ٹھیک ہوں یار ، آپ سنائیں ؟‘‘  میں  نے انتہائی بیزاری سے جواب دیا ۔ وہ بے چاری  بھی منہ بند کر کے بیٹھ گئی۔

اف توبہ !  کتنا غلط  کیا ناں  میں نے ، جانے انجانے  میں۔یہ احساس بہت بعد میں ہوا تھا ۔

خیر جناب ! بس ٹھیک ہو گئی تو ہم مسجد نبوی  کے پاس ہی اترے ۔ خان صاحب بھی آ گئے ، شرمین بھی ہمارے ساتھ ہی رہیں۔

 ’’ اچھا میں جا رہا ہوں  باقی لوگوں کے ساتھ ، تم  شرمین کے ساتھ ہی رہنا ، گم ہو گئی تو باتھ روم کا گیٹ نمبر بتانا ، میں آ جاؤں گا ٹھیک ہے؟‘‘

’’ جی جی ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے  ان کو تسلی دی ۔ 

’’آئیں بھابھی پہلے جلدی سے وضو کر لیتے ہیں پھر بہت رش ہو جائے گا  اور مسجد کے اندر بھی جگہ  نہیں  ملے گی ۔‘‘ میں نے شرمین بھابھی سے کہا اور پھر مت پوچھیں ان کی زبان  اور چلنے  کی سپیڈیں۔  مجھے  سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انکی زبان زیادہ تیز چل رہی ہے یا  وہ خود ۔

جی  آپ بالکل  ٹھیک سمجھے ، وہ مسجد  نبوی کے واش رومز ، مسجد نبوی کے  صحن میں اپنے  شوہر کی چغلیاں  کر رہی تھیں ، اپنی ساس  کی بھی  اور مزے کی  بات  وہ ساتھ ساتھ ایک  ایک  ریال وہاں کے ورکرز  کو صدقہ بھی دیتی جا رہی تھیں۔میں تو حیران ہی رہ گئی۔

مسجد نبوی کے اندر آ کر ان کی زبان اور ٹانگوں ، دونوں کو بریک  لگے  ۔

’’ اماں جی دیکھیں نا آپ نے  کتنی جگہ  گھیری ہوئی ہے ، دیکھیں ہمارے ساتھ چھوٹا سا بچہ ہے ، ہمیں تھوڑی سی جگہ دے دیں ۔‘‘ شرمین  مسکین شکل بنائے ، پاکستانی بڑھیا خاتون سے التجا  کر رہی تھیں  اور میں نقاب  کے  پیچھے مسکرا رہی تھی۔

کیوں ؟اوہ ! بتاتی ہوں  ناں مسکرانے کی  وجہ  تاکہ آپ بھی میرے ساتھ مسکرائیں  جناب ! وہ خاتون مسجد کے اندر بہت اطمینان سے ٹانگیں لمبی کر کے  اور بازو پھیلا   کر لیٹی ہوئی تھیں۔ ہوں گی میری آپ کی دادی   جان کی عمر کی ۔ اب بندہ ان کے ساتھ  سختی کیسے کرے؟ ایک تو  مسجد نبوی  کا لحاظ  پھر ان کا بڑھاپا۔

اب سنیں  انہوں نے شرمین کو جواب کیا دیا ۔’’ میں کیوں  جگہ دوں ، میں پیسے نہیں  لگا کر آئی پاکستان سے ، صرف تم لوگوں نے ہی پیسے  دیے ہیں ، میرا حق زیادہ بنتا ہے  بس ، میں نہیں ہٹتی یہاں سے ۔‘‘

 میرا  تو قہقہہ نکلا یہ سن کر ،  لیکن پھر میں نے نرم لہجے میں کہا۔

"اماں جی ! دیکھیں اگر آپ  لوگوں کے لئے آسانی پیدا  نہیں کریں گی تو  اللہ کے نبی آپ سے ناراض ہو جائیں گے ، آپ سے درخواست  کر رہے ہیں  ناں ، مان  جائیں۔‘‘  میں نے بہت  ہی پیار سے ان کو سمجھایا ، بات ان کی سمجھ میں آئی اور ہمیں نماز  کی جگہ ملی  الحمدللہ   ۔ 

نماز  جمعہ  ادا  کر کے صحن میں ہی تھی  کہ خان صاحب کی کال  آ گئی۔

’’ کدھر ہو بھئی،  بائیس  نمبر  گیٹ پر آجاؤ ، واپسی  ہے اب ۔‘‘

 ٹھک فون بند ، حد  ہے۔ بندہ  اگلے  کی بھی سنے ناں ، میں نے سخت کوفت میں موبائل  بیگ  میں رکھا  اور بائیس نمبر  گیٹ ڈھونڈنے  لگ گئی ، الله الله  کر کے گیٹ ملا۔  خان صاحب  اور  ان  کے پاکستانی دوست کی فیملی بھی ساتھ ہی کھڑی تھی۔  ان کے ساتھ ہم نے  ان کی پراڈو  میں  واپسی کا سفر کیا  ، الحمدللہ! بہت  ہی آسان سفر  تھا الله کے کرم سے ۔ گھر پہنچ کر بالکل بھی تھکاوٹ  کا احساس نہیں ہوا ۔

اس سارے واقعے  کو ایک مہینہ  گزرا تھا کہ  میرا دل پھر مچل گیا  ۔

 ’’ مدینہ شریف  لے جائیں پلیز !‘‘

 ’’ جی  نہیں ! بالکل بھی نہیں ، میں خود جاؤں گا اس بار !  تم اور عبدل گھر  پر ہی رہو۔ فولڈنگ سیٹ پر نہیں بیٹھنا ، یہ نہیں کرنا  وہ نہیں کرنا ، اتنے نخرے کیے تم نے لاسٹ ٹائم ، مجھے بہت شرمندگی ہوئی، بس گھر بیٹھو اب ۔‘‘   خان صاحب یکایک برس ہی پڑے  اور میں ؟ میری حالت  کہ  کاٹو تو بدن  میں لہو نہیں ۔

’’ اتنا غصہ کیوں آخر  کیو ں ؟ اگر ایسی کوئی بات تھی  تو اسی وقت کرتے ، ایک مہینے بعد کیوں ؟ ان کی تو ایسی عادت  ہی  نہیں ۔‘‘   میں سخت حیران تھی ، کچھ الجھن سی تھی۔  کیا وجہ ہے جو میرا  مدینہ شریف جانے کا بندوبست  نہیں ہورہا۔

اسی الجھن میں دو دن گر گئے ، سوموار  اور منگل ۔

یاد  کرو فاطمہ بی بی  ایسا کیا گناہ ہوا ہے ۔ ایسی کون سی  سنگین غلطی کر بیٹھی ہو ، جو اللہ  کے نبی کی  طرف سے  بلاوا  نہیں آیا  اس بار ۔ اللہ جی !! یاد کیوں نہیں آ رہا ۔

’’ ایک تو تم عورتیں چغلی بہت کرتی ہو۔‘‘   میں سوچوں میں گم تھی کہ خان صاحب  کی آواز آئی  ۔

’’ ہاں چغلی !! یاد  آگیا ۔ تھینک  یو عبدل کے پاپا  !!!‘‘میں خوشی سے چیخ ہی  پڑی ۔

 خان صاحب حیران و  پریشان  کہ محترمہ  کو  ہوا  کیا ہے۔

میں  نے جلدی سے وضو  کیا ، نماز پڑھی اور  الله سے معافی مانگی۔

’’ اللہ جی رئیلی سوری ۔غصہ  عقل کو کھا  جاتا  ہے ، میرے ساتھ بھی یہی ہوا  تھا اس دن ، پلیز الله جی ! معاف کر دیں ، مجھے زیرو پرسنٹ  بھی دھیان نہیں رہا  کہ میں حرم کی حدود میں ہوں ۔ پلیز اللہ جی  اب ایسا کچھ نہیں کروں گی ۔ معاف کر دیں  اپنے پیارے حبیب محمد صل الله علیہ وسلم  کے صدقے معاف کر دیں ۔ غلطی ہو گئی  پلیز مسجد نبوی جانے کا  بہت اچھا اور آرام دہ  بندوبست فرما دیں۔ پلیز الله جی  ۔ میں رو رو کر الله سے معافی  مانگتی  رہی  ، کافی دیر بعد جا کر  سکون آیا ۔

اور آپ  یقین نہیں کریں گے ۔ اسی شام کو  خان صاحب نے  مجھے تیاری کرنے  کا بولا۔

کہاں  کی ؟  جی جناب!  مدینہ  جانے کی  ٹھیک سمجھے آپ ۔ الله نے مجھے معاف کر دیا ۔ میری   دعائیں قبول ہو گئیں اور ہم پھر سے ایک چکر مدینہ شریف کا لگاآئے۔

اس سارے واقعے سے میں نے  کیا سیکھا  ؟ اور آپ نے کیا سیکھنا  ہے ؟ جناب ! ہم جانے انجانے میں بہت ڈھیر ساری غلطیاں اور گناہ کر جاتے ہیں ،  بالکل  بے دھیانی میں ، اور  پھر ہم پر الله کی ناراضگی آتی ہے ، مصیبتیں آتی  ہیں اور ہمیں سمجھ ہی  نہیں لگتی کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے ؟ میرا یہ چھوٹا سا واقعہ  یقینا  آپ سب کو یہ بتانے کے لیے کافی ہو گا کہ  غلطی بے دھیانی میں ہو ہی گئی ہے تو اللہ  جی سے معافی مانگ  لیں  اور آئندہ  پکا ارادہ کر لیں کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اللہ پاک ہم سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتے  ہیں ۔ یقین کریں جب ہم پورے یقین و  ایمان سے معافی یا کچھ بھی طلب کرتے ہیں  تو اللہ پاک بھی اپنے بندے کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے ۔

 آپ سب سے درخواست ہے  جو سعودیہ رہتے ہیں یا حج و عمرہ کے لئے آتے ہیں ۔چھوٹی چھوٹی باتوں کا خاص خیال رکھیں ، حرم کی حدود میں چغلی ، غیبت ، غصہ ، جھوٹ نہ بولیں  ۔خدارا ! دکھاوا بھی نہ کریں ، عبادت کے لئے آئے  ہیں ، عبادت کریں ، نیکیاں کمائیں  ، الله کے نبی  کے دربار پر ہر کوئی نہیں آتا  ، جو آتا  ہے انتہائی خوش نصیب ہوتا ہے۔

نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

جسے چاہیں اس کو نواز دیں یہ درِ حبیب ﷺ کی بات ہے

جسے چاہا در پہ بلالیا جسے چاہا اپنا بنا لیا

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے