وہ وہی نہیں رہی تھی۔ اس کی شباہت بھی نہیں رہی تھی بلکہ یہ تو اس وجود کا سایہ سا تھا۔ ایک لمبے عرصے بعد نائلہ میرے سامنے تھی۔ وقت نے اپنے سارے نشان اس کی ذات پہ ثبت کیے تھے۔میں نے سامنے دیکھا، بے حال سا وجود اپنی تمام تر رعنائی کھو چکا تھا ، اس کی شہابی رنگت سیاہ پڑ چکی تھی۔ بھرا بھرا سا چہرہ ہوا کرتا تھا ۔اب تو گالوں کی ہڈیاں ابھر آئیں تھی۔ اس کے لب خشک تھے وہاں سرخی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ لمبی زلفیں کچھڑی بالوں میں بدل گئے تھے۔ سب سے زیادہ حیرت مجھے اس کی پھیکی سی آنکھوں پہ ہوئی تھی ۔وہاں زندگی کی کوئی چمک نہیں تھی۔ ڈھلتی شام کے جیسی پیلی آنکھیں ویران تھیں۔کیا وقت اتنی جلدی گزر جاتا ہے؟ میں نے سوچا۔
پھر گزرا وقت ہمارے فیصلوں کے صحیح اور غلط ہونے کا بھی اتنا جلدی فیصلہ کرتا ہے۔ مجھے لگا آخری پھانس بھی میرے دل سے نکل گئی ہو۔
سائے سے وجود کے ساتھ بیٹھے ہوئی بھی میں بہت دور نکل آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھولے ہوئے منہ کے ساتھ بیٹھی میں نے کنکھیوں سے اماں کا چہرہ دیکھااور پھر ایک نظر سامنے چارپائی پہ پڑے بڑے پھولوں والی سلک کی قمیص پر ڈالی۔
’’ اماں میں تجھے بتائے دے رہی ہوں۔ میں یہ قمیص نہیں پہنوں گی عید پہ۔ مجھے تو نائلہ کے سوٹ جیسا چاہیئے۔ سبز جارجٹ پہ اتنا پیارا سنہرا گوٹا لگا ہے۔‘‘ بات کرتے ہوئے سنہرے گوٹے کا سنہری پن میری آنکھوں پہ اتر آیا تھا۔
اماں کو بدستور اپنے کام میں مصروف دیکھ کے میں جھنجھلائی ۔
’’ اماں تو سن رہی ہے نہ۔‘‘ گھنٹے سے بیٹھی میں اماں کی منتیں کر رہی تھی اور اماں تھیں کہ ...
یکایک میری آنکھیں بھر آئیں۔ ’’تجھے مجھ سے ذرا سا بھی پیار نہیں ہے اماں۔ دیکھ نائلہ کے ایک بار کہنے پہ تائی نے اسے سوٹ دلا دیا اور تُو میری بات کا جواب تک نہیں دیتی۔‘‘
میرے آنسوؤں پہ اماں کا دل پسیج گیا ۔ ان کے چہرے کی اداسی صاف نظر آ رہی تھی۔
’’ میری چندا۔۔تُو ، تو میری اچھی بیٹی ہے ناں! جانتی ہے کہ میں تیری فرمائش پوری نہیں کر سکتی۔‘‘
اماں نے پیار سے میری آنکھیں صاف کی تھیں۔’’ اگر تجھے سبز گوٹے کا سوٹ دلأوں تو تیری باقی بہن بھائی کی قمیصیں نہیں بنیں گی۔ پچھلی عید کی سفید شلوار ، دوپٹے کے ساتھ سب بہنیں ایک جیسی پھول والی قمیصیں پہن لینا۔‘‘
اماں کے اداس مگر پیار بھرے لہجے پہ میں مان تو گئی تھی مگر پھر کئی دن تک میرے حواسوں پہ گوٹے کا سنہرا پن رہا تھا۔
جب یہ بات میں نے نائلہ کو بتائی تو وہ ادا سے بولی ۔
’’ پیسے تو میری اماں کے پاس بھی نہیں تھے مگر تمہیں تو پتہ ہے وہ میری کوئی بات ٹال ہی نہیں سکتی۔ ابا سے چھپ کے ساتھ والی رشیدہ سے قرض لے کے بنا دیا ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں اپنی بات منوانے کا فخر بول رہا تھا۔
وقت کچھ آگے سرکا۔
جولائی کی تپتی گرمی تھی۔ یوں لگتا تھا سورج کئی دنوں کی گرمی آج ہی اچھال رہا ہو۔ شیشم کے سائے تلے لکڑیوں کے چولہے پہ میں ہنڈیا پکانے میں مصروف تھی۔ سکول سے فراغت کے بعد سے اماں کو آرام دینے کی خاطر ہنڈیا آج کل میں ہی پکاتی تھی۔ ماتھے پہ آئے پسینے کو دوپٹے سے پونچھ کے ، میں نے دیگچی میں چمچ چلایا جب ہی نائلہ آئی تھی۔
’’ہائے اللہ یہ کیا کر رہی ہو تم!‘‘
وہ میرے سر پہ کھڑے ہو کر چلائی تھی۔ میں آگ مدہم کرتے ہوئے گھبرا سی گئی،
’’ کیا ہوا ؟‘‘
’’ اتنی گرمی میں تم ہنڈیا بنا رہی ہو۔ وہ بھی آگ کے چولہے پہ!‘‘
میں حیران ہوئی ۔
’’ ہاں ہنڈیا میں ہی بناتی ہوں۔ اماں پہلے ہی اتنے کام کرتی ہے میں نے سوچا فارغ ہی ہوں تو کچھ اماں کو کام سے آرام دے دوں۔‘‘
’’ ارے پاگل ہوئی ہو ، اپنا رنگ دیکھو پہلے ہی سانولا سا ہے اب تو سڑ ہی جائے گا۔‘‘
میں ایک دم شرمندہ ہوئی اپنے سانولے رنگ پہ۔
’’مجھے دیکھو۔ میرا رنگ اور بھی نکھر گیا ہے ۔میں نے تو اپنی اماں سے صاف کہہ دیا مجھ سے نہیں ہوتے یہ گھر کے کام وام۔۔میری رنگت جھلس جائے گی اور میرے ہاتھ اتنے نازک ہیں۔ کام کیے تو تمہارے ہاتھوں جیسے ہو جائیں گے۔‘‘
میرا چہرہ ایک دم سرخ ہوا تھا پتہ نہیں اس کی بات پہ یا پھر سورج کی تپش یا آگ کی تاپ سے۔
’’مجھ سے نہیں کھڑا جاتا یہاں تم جلدی سے کمرے میں آؤ۔‘‘
اور پھر کئی دن تک میں نے کام کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔
چند ماہ گزرے گرمی کی شدت ختم ہو گئی تھی۔ میں نائلہ کی بات بھول بھال کے گھر کے تقریباً سارے ہی کام سیکھنے لگی۔ اس وقت بھی میں دادی کے کرتے کی ترپائی کر رہی تھی جب نائلہ آدھمکی۔میں نے دیکھا وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی اس کا چہرہ کھلتے گلاب جیسا تھا۔
’’ سنو وہ پچھلی گلی میں جو ارشد صاحب رہتے ہیں ان کی بیٹی شہر سے بیوٹیشن کا کورس کر کے آئی ہے۔مہر بانو اور میں نے بات کی ہے وہ سکھانے پہ تیار ہے۔ عصر کے وقت ایک گھنٹہ...‘‘
وہ تفصیل بتا رہی تھی۔ میں جو پرجوش ہو کے سن رہی تھی کہ اچانک اماں کا خیال آنے پہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ میں جانتی تھی اماں کبھی اجازت نہیں دیں گی اور پھر وہی ہوا ۔میری لاکھ منتوں کے بعد بھی اماں نہیں مانی۔
’’تمہیں تائی نے اجازت دے دی؟‘‘ میں نے اگلے دن افسردگی سے پوچھا۔
’’لو اجازت کی کیا ضرورت! میں نے تو بس اماں کو بتایا ۔وہ تو میری خوشی میں خوش ہوتی ہیں۔‘‘ وہ اترائی اور میرا چہرہ کچھ اور بھی اتر گیا۔پھر نائلہ جب بھی آتی بڑا خوش ہوتی ۔ کچھ دن بعد ہی اس نے مجھے ارشد صاحب کے بھائی کے اکلوتے بیٹے عاصم سے دوستی کا بتایا۔
ان کے گھر کا ماحول کھلا ڈلا تھا۔ سیکھنے آئی لڑکیوں پہ کسی قسم کی پابندی نہیں تھی سو نائلہ کو کچھ مشکل نہ ہوئی اور پھر تو وہ جب بھی ملتی اس کے پاس ہزراوں باتیں ہوتیں۔ میرے بہت سمجھانے کے باوجود اس پہ کچھ اثر نہ ہوتا بلکہ جب میں نے کہا کہ مجھے مت بتائے مجھے ایسی باتوں سے دلچسپی نہیں۔تو کہنے لگی۔
’’ تم مجھ سے جیلس ہوتی ہو اس لئے دراصل تم سے میری خوبصورتی اور عاصم کا پیار کرنا برداشت نہیں ہوتا۔‘‘
بات تو تب بگڑی جب نائلہ کی ممانی ماموں نے اس کی شادی کی بات چھیڑی۔ اس کا رشتہ کئی سالوں سے اپنے کزن سے طے تھا۔میرا خیال تھا وہ شادی ادھر ہی کرے گی کیونکہ ایسے لڑکے شادی نہیں کرتے ۔ عاصم چونکہ نکما تھا اس کے خاندان برادری میں کوئی اسے لڑکی دینے پہ تیار نہیں تھا۔
عاصم اسے شادی کے سہانے خواب دکھا چکا تھا اور پھر ہمیشہ اپنی من مانی کرنے والی نائلہ نے ڈنکے کی چوٹ پہ اس شادی سے انکار اور عاصم سے شادی کا اصرار کیا تھا۔
ساری زندگی نائلہ کی ماننے والی تائی کو اب ہوش آیا تھا ، نائلہ کو لاکھ سمجھایا مگر بے سود۔
مجبوراً زبردستی ماموں کے بیٹے سے شادی کی تاریخ طے کر دی گئی۔ اگر عاصم میں ذرا بھی کوئی گن ہوتا تو تایا مجبورا سہی مگر مان جاتے لیکن تحقیق سے عاصم کے جو جوہر کھلے تھے اس کے بعد تو کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا تائی نے خود کو تسلی دی۔ مگر پھر مایوں کے دو دن بعد مایوں کی دلہن گھر سے بھاگ گئی۔
والدین کی عزت کے ساتھ ساتھ وہ تمام نقدی اور زیور بھی لے گئی تھی۔
شادی کا گھر گویا میت کا گھر بن گیا تھا۔ تائی اپنے سر پہ خاک ڈالتی رہتیں اور یہی سچ بھی تھا۔ یہ والدین ہوتے ہیں جو اولاد کی تربیت کرتے ہیں انہوں نے نائلہ کو جو سکھایا تھا اس نے وہی کیا تھا۔
چند مہینے بعد ایک جاننے والی نے بتایا تھا وہ اتفاق سے کسی اور شہر نائلہ سے ملیں۔ ان کا کہنا تھا ہنسی نائلہ کے لبوں سے جدا نہیں ہوتی اس کی آنکھوں کی جوت ستاروں کو بھی شرماتی ہے۔ نائلہ بے حد خوش ہے ۔اسے اپنے کسی فیصلے پہ کوئی پچھتاوا نہیں تھا بلکہ فخر تھا۔
چھ ماہ بعد جب میری شادی عبداللہ سے ہوئی تو عبداللہ کو دیکھ کے مجھے نائلہ کی باتیں شدت سے یاد آئیں۔ عام سے صورت کا عبداللہ جسے ستاروں سی باتیں کرنے نہیں آتی تھیں جس کے لفظوں میں کوئی جادو نہیں تھا۔ مگر تھوڑے ہی عرصے بعد زندگی کی حقیقتوں میں الجھ گئی۔ اور پھر کئی سالوں کی ریاضت کے بعد آج میرا مقام تھا۔ عبداللہ لفظوں سے جادو نہیں کر سکتا تھا لیکن اس نے مجھے جو عزت محبت اور مان دیا تھا وہ میری شخصیت کو نکھار گیا تھا۔میرا اعتماد حوصلہ عبداللہ کا دیا ہوا تھا ۔ میرا عام سا وجود اب بہت خاص تھا۔
وقت نے اپنا رنگ مجھ پہ بھی چھوڑا تھا جس سے میری ذات رنگ گئی تھی۔ اور ایک وقت نائلہ پہ بھی گزرا تھا جو آج میرے سامنے بیٹھی اپنی داستاں ساکت ہونٹوں سے بیاں کر رہی تھی۔ عاصم توکب کا اسے چھوڑ چکا تھا۔ کوئی سالوں سے وہ کچی بستی میں مقیم تھی ۔ گھروں کا کام کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ اندھیری راتوں کو دہلیز پار کرنے والیوں کے مقدر میں رات کے ستارے نہیں آتے، رات کی سیاہی آتی ہے!!