شمارہ نمبر 21

Ap sey kuch kehna hy

نازیہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔  ایک ہی اسکول اور کلاس میں ہونے کی وجہ سے دوستی ہوگئی اور پھر دیکھتے دیکھتے گہری ہوتی گئی۔ہمارا اور اسکا گھر میں آنا جا نا ایسا تھا جیسے ایک ہی گھر ہو۔  نازیہ کو ہم پیار سے نازو کہتے اور وہ ہمیں فیزی۔قصہ مختصریہ کہ نازو کو آئے دن کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا جوش چڑھ جاتا اور اسکا ساتھ ہم بھر پور دیتے۔اور یہ آئے روز کے کارنامے نہ صرف نازو کو مقبول کرتے بلکہ ہنسنےکے خوب مواقع فراہم کرتے۔سب تو خوش ہوتے مگر نازو کی والدہ بڑی پریشان ہوتیں کہ آخر اسکا کیا بنے گا۔خالہ جتنی سگھڑ اور دھیمے مزاج کی تھیں نازو اس کی الٹ تھی۔ہر وقت شور شرابہ کرنے والی شوخ چنچل سی۔ اورکام کرتی کم پھیلاتی خوب تھی۔

 ایک دفعہ ہوا کچھ یوں کہ ہم اور  نازو صاحبہ پیپرز ہونے کے بعد فارغ تھیں اور کچھ نیا کرنے کی فکر میں جت گئی۔

 

کافی سوچنے کے بعد اسکے ذہن میں فیشن ڈیزائنگ کا خیال آیا۔اب نازو نے کپڑے کی تلاش شروع کردی۔ہر جگہ ڈھونڈ نے کے بعد بھی اس سے کپڑا نہ مل سکا۔ اس نے سوچا جو لباس وہ پہنتی نہیں اس کو کام میں لایا جائے۔

بڑی مشکل سے دو قمیصیں نکلیں ۔ کافی وقت  اور دماغ کھپا کے سلائی کی۔شام کو وہ قمیض تیار ہوپائی۔ فوراً ہمیں میسج کیا کہ جلدی پہنچیں ۔ہم سمجھ گئے کہ نازو میڈم نے یقینا کوئی گل کھلایا ہے۔ فوراً بھاگے چلے آئے۔

 نازوکو دیکھا تو ہماری ہنسی ہی نہ تھم سکی۔ہم نازو کو آئینے کی طرف لے گئےاس نے آئینہ دیکھا اور خود پر بے تحاشا ہنسی۔کیونکہ دونوں قمیض کے  حصے کچھ اس طرح سے جوڑے  گئےتھے کہ گلا  تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ گول ہے یا ترچھا۔آستینیں اس طرح لگائی گئیں کہ جیسے الگ سے دو ہاتھ لگا دیے ہوں۔ دامن ٹیڑھامیڑھا پہاڑ کا نقشہ کھینچ رہا تھا۔ ہم دونوں مل کے بہت دیر تک خوب ہنستیں رہیں۔پھر نازو نے جلدی سے لباس تبدیل کیا۔اماں آنے ہی والی تھیں ۔ وہ  دیکھتیں تو خوب شامت آجاتی۔
ابھی اس واقعے کو چند دن ہی گزرے ہونگے کہ نازو نے پھر کچھ کرنے کی ٹھان لی۔اور وہ نیا کارنامہ یہ تھا کہ نازو نے بڑی منت سماجت کر کے اپنی اماں سے بریانی بنانے کی اجازت لی اور گھر بھر میں اعلان کردیا کہ آج انکے ہاتھ کی بنی ہوئی بریانی ہی کھائے جائےگی۔

اب یہ تو ناممکن سی بات ہے کہ وہ ہمارے بنا ہی یہ شاہکار تیار کرلیں۔سو اجازت ملتے ہی ہمیں فون ملایا اور جلدی سے حاضر ہونے کو کہا۔ہم بھی دوڑے چلے آئے ۔ جھٹ پٹ بریانی کی ترکیب ڈھونڈ نکالی۔اسکے تمام اجزاء منگوائے اور کچن میں مصروف ہو گئے۔تھوڑی ہی دیر میں مصالحے کے سب ڈبے شیلف پر جمع ہو چکے تھے۔ خالہ جب جب کچن کے اطراف سے گزرتیں۔صلواتیں ضرور سناتیں۔نازو پوری توجہ کے ساتھ بریانی بنانے شروع ہوگئی اور ہم اسکی مدد کرنے لگے۔پہلے قورمہ کی تیاری کی جو قورمہ جیسا بن ہی گیا۔اب باری چاولوں کی تھی۔جس پرچے پر ترکیب لکھی تھی وہ بیچارا بار بار ہاتھ میں آکر اتنا خستہ حال ہوگیاکہ اسکا آخری وقت ہی آپہنچا۔اب ہم بھی اناڑی تھے ۔الف ب بھی نہ پتہ تھی بریانی کی۔

 آگے کیا کرنا ہے یاد ہی نہیں تھا۔مگر نازو نے کہااس نے تو ترکیب حفظ کرلی ہے ۔ یہ سن کےجان میں جان آئی۔اب چاولوں کو ابالنے کے بجائے نازو کے حافظے کے حساب سے اس سے قورمہ میں ڈالنا تھا اور پھر ڈھیر سارا پانی۔ایسا ہی کیا گیا۔مگر پانی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ جانے کیا بیر تھا ہم سے ۔تھک ہار کے نازو نے بھابھی کی مدد لینے کا سوچا۔ ہم بھی راضی ہوگئے۔

جھٹ بھابھی کے کمر ے میں پہنچ گئے ۔پوری کہانی سنائی ۔بھابھی بیچاری پہلے تو ہنسی روکتی رہیں۔ ہم دونوں بیچارے شرمندہ سے زیادہ فکر مند اور التجائیہ نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔آخر کار انہیں ترس آگیا اور کچن میں ہمارے ہمراہ آگئیں۔جب بریانی کی شکل دیکھی تو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ فی الوقت کیا کیا جائے۔پھر کافی سوچنے کے بعد انکے ذہن میں ایک حل آہی گیا۔ اور وہ یہ کہ اسکو حلیم بنا دیا جائے۔  ۔یہ سنتے ہی ہم دونوں کے چہرے مرجھا گئےمگر اسکے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔پانی اتنا تھا کہ چاول قورمہ سب تیر رہے تھے۔
جب سب بریانی کے منتظر کھانے کیلئے بیٹھے تو سامنے حلیم جیسی چیز کو دیکھ کر حیرانگی سے پوچھنےلگے  کہ بریانی کہاں گئی؟؟ ہم دونوں خاموش۔بھابھی نے سب بتایاکہ کیسے بریانی حلیم بنی۔سب بہت ہنسے  مگر بعد میں خالہ نے وہ کلاس لی کہ اللہ کی پناہ!!

اس واقعے کے بعد نازو نے توبہ کرلی کچن میں جانے سے۔پھر کچھ دن یونہی خاموشی سے گزر گئے۔اور ہم دونوں پڑھائی میں لگ گئے۔امتحان سر پر کھڑے تھے۔ہم زیادہ دیر رات تک نازو کے گھر میں پڑھتے اور وہیں سوجاتے۔اس دن بھی  ایسا ہی ہوا۔ہم دونوں اکھٹےپڑھ  رہے تھے کہ بجلی چلی گئی۔نازو صاحبہ ہمارے قریب آئی اور فرمایا۔’’چلو فیزی! بھوت بنتے ہیں۔‘‘یہ سن کر ہم سکتہ میں آگئے۔ہمیں اسکی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا۔ ہماری کیفیت وہ سمجھ گئی۔پھر سمجھانے بیٹھ گئی۔’’بھئ بھوت بننے کے بڑے فائدے ہیں۔ جیسےرات بے ٹائم جب بھوک لگےتو آرام سے کچن سے جو دل چاہے اڑالیں اور نام بھوت کا لگادیں۔ اماں کی جھاڑ سے بھی بچ جائیں۔ اسی طرح جب کوئی تجربہ کر رہے ہوں اور گڑبڑ ہو جائے تو بھوت کو آگے کردیں۔ایسی چیزیں جن کے استعمال کی اجازت نہیں ملتی اس  کواستعمال کر کے رکھ دیا جائے جب اماں دریافت کریں تو پھر بھوت کے کھاتے میں ڈال دیں۔مثلا ً بادام اور اخروٹ کب سے کچن کی اوپر والی الماری میں پڑے ہمارا انتظار کررہے ہیں۔‘‘

 ’’ارے واہ!‘‘ ہم تو نازو کےدماغ کی داد دیے بنا نہ رہ سکے۔مگر اس کے لیےپہلےگھر والوں کو بھوت کی موجودگی کا یقین دلانا تھا اور آج سنہری موقع ہاتھ لگ گیا۔ہم اسکی ہر بات سے متفق تھے اس لیے بس ہاں ہاں کرتے رہے۔ بجلی تھی نہیں تو موم بتی میں دونوں نے ایک دوسرے کا خوب  گہرا میک اپ کیا۔ سفید چادر لپیٹی۔اب ہم دونوں موم بتی ہاتھ میں پکڑے کمرے سے باہر نکلے اور بیٹھک کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔سب وہیں موجود تھے۔اور وہیں سے پچھلے دروازے سے فرار کا راستہ بھی ڈھونڈ لیا تھا۔ابھی ہم نے صحن عبور کرکے آگے قدم ہی رکھا تھا کہ بجلی آگئی اور ہمارا رخ جس طرف تھا وہاں بڑا آئینہ دیوار پر ٹنگا تھا۔دونوں نے بیک وقت آئینہ دیکھا۔نازو خود کو دیکھ کر ایسی ڈری کہ زور سے چلائی۔ اس کے ساتھ ہم بھی کیونکہ ہم اور نازو اتنے خوفناک لگ رہے تھے کہ ہمیں بھوت سمجھنا  کچھ مشکل نہ تھا۔

 سب جمع ہوگئے اور پہلے پہل توکچھ سمجھ نہ پائے۔ بس ہمیں گھورتے رہے۔ بھابھی نے نازو کو سنبھالا۔ہم نے تھوک نگلتے ہوئے سب بتایاتو سب نےہماری صورتوں اور حلیے کو دیکھ کرمسکرانا شروع کردیا۔جب ہم بات مکمل کرچکےپھر تو ہر طرف ہنسی کا شور تھا۔نازو بھی ہوش میں آگئی۔اور گھر والوں نے کئی دنوں تک ہمارے خوب ریکارڈ لگائے۔

اب تو نازومحترمہ  دو بچوں کی اماں ہیں۔آج بھی جب کبھی ملاقات ہوتوان قصوں کو خوب یاد کرتے ہیں۔