شمارہ نمبر 21

Ap sey kuch kehna hy

ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہؓ  آپؓ بڑی رحم دل،منکسر المزاج، اور سخی تھیں۔آپ ہمہ وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں اور ہمیشہ آپ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتی تھیں۔اگرچہ آپ کا بچپن بڑے ناز و نعم میں گذرالیکن اس دور کی دوسری بچیوں کی بہ نسبت آپ بڑی منفرد تھیں۔ بچپن ہی سے انھیں غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کو کھانا کھلا نے کا بڑا شوق و ذوق تھا۔ جب تک وہ کسی کو کھانا نہ کھلا لیتیں انھیں سکون محسوس نہ ہوتا۔اْن کے باپ خزیمہ کا شمار اْس زمانے کے بڑے رئیسوں میں ہوتا تھا۔ اْس کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔

 

باوجود اس دولت و ثروت کے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے اندر بچپن ہی سے عاجزی ،انکساری اور فیاضی کی صفت پائی جاتی تھی۔اسی وجہ سے زمانہ جاہلیت سے ہی لوگ آپ کی اس صفت کی وجہ سے آپ کو ’’ام المساکین‘‘ کے لقب سے یاد کرنے لگے تھے۔
ابن ہشام لکھتے ہیں:
’’
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کو ’ام المساکین‘ کہا جاتا تھا،ان کی رحم دلی اور نرمی کی وجہ سے۔‘‘

 الاستیعاب اور الاصابۃ میں لکھا ہے:

’’اور انہیں ام المساکین کہا جاتا تھا۔کیوں کہ وہ انہیں کھانا کھلاتی تھیں اور انہیں صدقہ خیرات دیتی تھیں۔‘‘
اسی طرح کے الفاظ تاریخ الطبری:3/33 اورشذرات الذہب :1/10 میں بھی ملتے ہیں۔
طبرانی نے ابن شہاب الزہری سے روایت کیا ہے کہ:
’’
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا بنت خزیمہ الہلالیہ سے نکاح فرمایا، اس وقت بھی ان کی کنیت ام المساکین تھی۔ یہ نام اور کنیت بوجہ کثرت سے غرباء اور مساکین کو کھانا کھلانے سے مشہور تھی۔‘‘
ابن ابی خشمیہ فرماتے ہیں:
’’
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جاہلیت میں بھی ام المساکین کے لقب سے معروف تھیں‘‘۔
ان ہی صفات کے حامل لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
یوفون بالنذرویخافون یوماً کان شرہ مستطیراً۔ویطعمون الطعام علی حبہ مسکیناً و یتیماًواسیراً۔انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء ولا شکوراً۔انا نخاف من ربنایوماً عبوساً قمطریراً (سورۃ الدھر)
’’
یہ وہ لوگ ہوں گے جو (دنیا میں) نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہو گا۔‘‘ (سورۃ الدھر)
مفسرین اور سیرت نگار ،صحابہ کرام میں سے کئی ایک عظیم نام لے کر بیان کرتے ہیں کہ وہ ان آیات کی تصویر و تفسیر تھے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ بھی اس کا بہترین نمونہ ہیں۔
عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی اپنی کتاب’نساء النبی‘ میں الشیخ محمد المدنی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ انہوں نے ’’الرسالۃ‘‘میں اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے:
’’
زینب بنت جحشؓ بہت زیادہ سخی تھیں۔یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ۔اور وہ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بہت شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتی تھیں۔یہاں تک کہ وہ ’’ام المساکین‘ کے نام سے معروف ہو گئیں۔‘‘
لیکن عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی اس کی نفی کرتی ہیں کہ مجھے نہیں معلوم انہوں نے کہاں سے اس لقب کو زینبؓ بنت جحش کے لیے استعمال کیا ہے۔جب کہ سیرت کے تمام مصادراور قرنِ اول کی تمام تاریخی کتابوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ لقب حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کے لیے ہے۔‘‘
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی رخصت ہوئیں۔جب کہ دیگر ازواج مطہّرات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وفات پائی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کی خود نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا۔آپؓ پہلی امہات المومنین تھیں جن کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی۔