’’ہیلو! بھائی جان! السلام علیکم!‘‘ نزہت نے اپنے بھائی ، فاروق صاحب کو کال کی۔
’’وعلیکم السلام ! نزہت! کیا حال چال ہیں؟‘‘ فاروق صاحب نے خوشدلی سے پوچھا۔
’’سب خیر یت ہے بھائی۔ اللہ کا شکر ہے۔ وہ آپ سے ایک بات کہنا تھی۔۔!‘‘ نزہت نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ہاں کہو!‘‘ فاروق صاحب کے لہجے کی پچاس فیصد خوشدلی کم ہو گئی جس کا اندازہ نزہت کو بھی ہوچکا تھا لیکن کہے بنا چارہ کہاں تھا۔
’’بھائی وہ کچھ پیسے چاہیے تھے پانچ چھ ہزار۔۔ اگر ہو جاتے۔ اصل میں عید سر ہے۔ پھر ان کی دکان بھی بند رہی ہے بیماری کی وجہ سے ۔ توبچوں کے کپڑے اور دوسرے خرچے۔۔‘‘ نزہت کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کہے اور کیانہ۔
فاروق صاحب نے بات کاٹ دی۔ ’’دیکھو نزہت! بات یہ ہے کہ تم لوگ پہلے والے پیسے واپس کرو تب میں کچھ سوچوں گا۔ اس بار تو میرے پاس بھی کچھ نہیں۔ ڈیفنس والے بنگلے کی فنشنگ کروانی ہے۔باہر طاہر بیٹے کو پیسے بھجوانے ہیں۔ اس لیے معذرت۔ ‘‘ یہ کہ کر فاروق صاحب نے کال کاٹ دی۔
شام کو وہ اپنے بھائی ، حیدر کے گھر کھانے پر مدعو تھے۔ اس کا کپڑوں کا بزنس کافی اچھا جا رہا تھا۔ خود فاروق صاحب کے مین مارکیٹ میں دو پلازے تھے۔ کروڑوں میں کرایہ آتا تھا۔کھلا خرچتے تھےلیکن دل کے معاملے میں دونوں بھائی اتنے ہی تنگ تھے۔
’’دیکھو ذرا! پہلے بھی میں نےنزہت اور اس کے میاں کو تیس ہزار دے چکا ہوں۔ مجال ہے جو واپس دینے کا نام بھی لیں۔ اور مانگنے آجاتے ہیں۔ بھئی بندے میں کچھ شرم ہوتی ہے کچھ احساس ہوتا ہے کہ اس بندے سے ہم نے پیسے لیے ہوئے ہیں۔ تو پہلے وہ واپس کریں۔ ‘‘ فاروق صاحب دل کی بھڑاس نکال رہے تھے ۔
حیدر صاحب بھی گویا ہوئے۔ ’’ہاں مجھے بھی نزہت کا فون آیا تھا۔ میں نے تو اسی وقت انکار کر دیا۔ بھئی میں کسی لارے لپٹے میں رکھتا اگلے بندے کو۔ باہر سے مال منگوانا ہے۔ عید قریب ہے۔ یہی تو بکری کے دن ہیں۔ میں نے کہ دیا اگلے مہینے سوچوں گا۔ ‘‘
’’صحیح کیا تم نے۔ میں تو اپنے تیس ہزار پر صبر کر چکا ہوں۔ لیکن اب یہ غلطی نہیں کروں گا۔ بھئی اگر آپ کا خرچہ نہیں چل رہا تو کوئی نہ کوئی کام کرلو۔ آخر عورتیں گھر بیٹھے محنت مزدوری بھی تو کرتی ہیں۔ حیدر ! وہ اپنے پڑوس میں نہیں رہتے تھے بشیر میاں۔ ان کی بیوی ہے ۔ نمکو کُھلا لے آتی ہے۔ پیکٹ بنا کے بیچتی ہے۔‘‘
’’ہاں بھئی ! کچھ نہ کچھ کرناہی پڑتا ہے ناں! اس طرح ہاتھ پر پاتھ دھرے تو کام نہیں چلتا۔ یہ کیا کہ ادھر خرچے پورے نہ ہوئے ادھر بھائی میاں کو فون کھڑکادیا کہ پیسے دو ۔ میں تو کہتا ہوں ایسے لوگوں کو پیسے دینا ان کی عادت خراب کرنے کے مترادف ہے۔ ‘‘ حیدر نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’اچھا یار! میں چلتا ہوں۔ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے ہیں۔ ۲۵ کل نکلوائے تھے۔ ۲۵آج نکلواؤں گا۔ بچوں کو شاپنگ کروانی ہے۔ ‘‘ فاروق صاحب نے کہا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر نکل گئے۔