’’جی کون؟‘‘
’’میں ہوں سمیعہ خاور!بھکرسے ۔آپ نے میری کہانی ’اٹوٹ رشتے‘کا نام ناقابل اشا عت میں لگایاہے۔وجہ؟‘‘اس نے یکدم حملہ کیا،ہم نے بمشکل اپنی حواس کومجتمع کیااورکہا:
’’ سمیعہ صاحبہ ! ہر وقت یہ یاد نہیں رکھا جاسکتا کہ کون سی کہانی کس وجہ سے ناقابلِ اشاعت قرار دی گئی تھی،بس معیارمیں کوئی کمی ضرور ہوگی۔‘‘
’’میں وہی جاننا چاہتی ہوں۔کیا کمی تھی میری تحریر میں۔‘‘وہ پیچھاچھوڑنے والی نہیں تھی۔
’’بھئی سینکڑوں تحریریں ہوتی ہیں،کیسے یاد رہ سکتا ہے‘‘
’’یہ اچھابہانہ ہے کہ یادنہیں رہ سکتا۔‘‘
’’میں کہتی ہوں آپ کوکس احمق نے بنایاہے ایڈیٹر،جسے کچھ یادہی نہیں رہتا۔‘‘
’’بی بی ہمارا دماغ کوئی کمپیوٹر نہیں جو اتنے ریکارڈ یاد رکھے۔‘‘
’’اپنے دماغ کاعلاج کرائیں۔اس کے بعدایڈیٹری کریں۔‘‘انہوں نے غصے سے کہااورہم نے مزیدطعنے سننے سے بچنے کے لیے فون بندکردیا۔ کچھ دیرپانی وغیرہ پی کرخود کونارمل کیا ،اس کے بعدپھر نظموں کی طرف متوجہ ہوئے اوراگلی نظم دیکھ کر اچھل پڑے ،یہ ہماری سہیلی ماہ رخ کی تھی جو اسکول ٹیچرہے۔اس نے لکھاتھا ۔
کب سے کھڑی ہوں دیکھتی
اک باغ کانظارہ
پھول ہیں کہ بچے
قطاراندرقطار کھڑے ہیں
اوردرختوں کی شاخیں
کسی قلم کی مانند ابھری ہیں
کاش یہ کسی استانی کا
کبھی بھی ڈنڈانہ بنیں
کبھی نہیں،ہرگزنہ بنیں
پتانہیں کیوںیہ نظم کچھ گزارے کے قابل لگی ۔اوکے کردی۔۔۔ورنہ ۔۔۔ورنہ ماہ رخ ناراض ہوجاتی ناں۔
آخری نظم اٹھائی،لکھاتھا
براؤن نیل پالش ،سرخ لپ اسٹک ،امپورٹڈغازہ
وہ بھینابھیناابٹن،سرخ سرخ مہندی ،وہ کالاکالاسرمہ
ہم نے جلدی سے باقی اشعار نظراندازکرکے نیچے نام پتادیکھا،لکھاتھا۔میڈم نگہت،شاہزادی بیوٹی پارلر،شارع فیصل کراچی
ہم نے جلدی سے اس کابھی وہی حشر کیا جو کرنا چاہیے تھا۔ نظموں کا پلندا ختم ہوچکا تھا۔ ہم فارغ بیٹھے ماہ رخ کی اس واحد نظم کو گھور رہے تھے جو صرف دوستی کے ناطے’’اوکے‘‘ہوکے ہمارے سامنے رہ گئی تھی۔
اب ہم نے سر گھما کر ٹائم دیکھا تو اچھل ہی پڑے،پونے تین بج رہے تھے۔نسرین اور ثنا دونوں کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ ان دونوں سمیت بجلی بھی غائب تھی،نامعلوم کب سے ۔ اسی وجہ سے اذان کی آواز بھی نہیں سنائی دی تھی اور ہمارا جسم بھی پسینے سے شرابور ہورہا تھا۔ ہم چکراتے ہوئے اپنے کمرے میں گئے اور بستر پر گر گئے۔ سر بھاری ہورہا تھا، شاید بخار چڑھنے لگا تھا۔
آج اتوار تھا،کام کاآخری دن۔شام تک شمارہ دفتر پہنچانا تھا۔ اب تک ہم ایک نظم ،دوکہانیاں ،ایک چوری کیاہوااداریہ اور تین منتخب شدہ دینی مضامین ہی کمپوزکرا پائے تھے۔یہ کل دس صفحوں کا مواد تھا جس کی تصحیح ثنا کررہی تھی بہرکیف ابھی ہمیں چارکہانیاں مزید درکارتھیں۔
’’ثنا! آج فون کی سم آن مت کرناورنہ جوکام ہوسکتاہے ہم وہ بھی نہیں کرپائیں گے‘‘ہم نے آج پہلی ہدایت یہی دی تھی۔
’’کل میاں جی نے آنا ہے اور ہمارا خوب مذاق اڑانا ہے۔مذاق ہی کیا بہت غصہ بھی کریں گے۔ہائے اماں ہماری توکٹ جائے گی ناک‘‘ہم بحالتِ بخاردل ہی دل میں رونے لگے۔
’’ثنا !‘‘ہم نے کچھ دیر بعدبہت ہی نحیف سی آوازنکالی۔
’’جی باجی‘‘
’’ڈاک میں فرحانہ رباب ،ہمشیر نیک محمد،عرشہ شاہد،رفعت رعدی وغیرہ کی کہانیاں آئی تھیں۔‘‘
’’جی باجی‘‘
’’پھر کیاکیاان کا؟‘‘
’’جیسے آپ نے کہا تھا، ناقابل اشاعت کی فہرست میں درج کیا اورردی میں ڈال دیا۔‘‘
’’اوہ! کیا اب وہ تحریریں مل سکتی ہیں؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’کک کیوں‘‘ہماری سانس اٹکنے لگی۔
’’کیونکہ ردّی کی ٹوکری کئی بارمقدس اوراق والے ڈرم میں خالی ہوچکی ہے ۔۔۔اور۔۔۔‘‘
’’اورکیا۔۔۔‘‘
’’کل حجازی ٹرسٹ والے ڈرم خالی کرکے اوراق لے گئے تھے۔‘‘
’’احمق! بے وقوف! تم نے۔۔۔ تم نے انہیں روکا کیوں نہیں۔‘‘ہم غصے سے چلّائے۔
’’میں کیوں روکتی ! آپ نے کب کہاتھاکہ ڈرم خالی نہیں کرواناہے۔‘‘اس نے بھناکرجواب دیا۔
’’تت تم ۔۔۔تمہارے اندرعقل نام کی کوئی چیز نہیں ۔اب کہاں سے لاؤں میں تحریریں۔جاؤ ،اسی وقت کہیں سے وہ تحریریں لے کرآؤ۔‘‘
’’معاف کیجیے گا !میں نہیں لاسکتی ۔‘‘اس نے ترکی بترکی جواب دیا۔
’’ نہیں لاسکتیں۔۔۔‘‘ہم غصے کے مارے اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ہماری مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں گویااسے مارنے کوتیارہیں۔
’’جی ہاں اورمیں آپ کے ساتھ کام بھی نہیں کرسکتی ،کیونکہ آپ کارویہ نارمل حدسے تجاوزکرچکاہے۔‘‘یہ کہہ کراس نے اپناپرس اٹھایا،چادراوڑھی اورباہرنکل گئی۔ ہم بے جان سے ہوکرکرسی پرگرگئے۔
’’ارے دنیاوالو! کہیں سے کوئی کہانی مل سکتی ہے۔کوئی اچھی سی کہانی۔ہم اضافی معاوضہ بھی دینے کوتیارہیں۔‘‘خاصی دیرکی خاموشی کے بعدہم مایوسی کے عالم میں منمنائے۔
’’میں دے سکتی ہوں باجی آپ کو اچھی اچھی کہانیاں۔‘‘ نسرین جوہماری بغل میں کمپیوٹرپرگیم کھیلنے میں مصروف تھی ،بول اٹھی۔
’’کہانیاں،کک کہاں سے؟‘‘ہم بے یقینی سے بولے۔
’’وہ ناں میں نے فارغ وقت میں اپنی سب کہانیاں کمپوز کرلی ہیں، آپ کہیں تو پرنٹ نکال دوں۔‘‘نسرین کی مسکان چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
’’ہاں ۔۔۔مم مگر پہلے صرف ایک کہانی کاپرنٹ دو۔اس شمارے میں تو تمہاری ایک ہی کہانی لگ سکے گی ناں۔‘‘
’’مگر آپ کوتو چار درکارہیں ناں ۔‘‘
’’ہاں مگر۔۔۔‘‘
’’اگر مگر کیا۔ آپ میری چاروں کہانیاں لگادیں۔ ایک نسرین کے نام سے ،ایک بنت جاوید کے نام سے اور ایک اخت ارشدکے نام سے اور ایک ۔۔۔ ایک اُمّ عکاشہ کے نام سے۔‘‘آخری نام اس نے کچھ سوچ کرطے کیا۔
’’اچھاچلو پرنٹ نکال کردو،دیکھوں تم نے کیالکھاہے؟‘‘
’’باجی سچ بہت اچھالکھتی ہوں۔ رضیہ فصیح احمد اور بانو قدسیہ کا انداز اپنانے کی کوشش کرتی ہوں۔یہ لیجیے پرنٹ آرہا ہے۔‘‘ وہ گنگنائی۔ مگرعین اسی وقت ۔۔۔بجلی غائب ہوگئی اور اس کا خوشی سے سرخ گلاب ہونے والاچہرہ گوبھی کی مانند سوج گیا۔ (جاری ہے)