ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا ومن كفر فإن الله غني عن العالمين۔(القرآن)
ترجمہ:اور اللہ پاک نے ( سورہ آل عمران میں ) فرمایا لوگوں پر فرض ہے کہ اللہ کے لیے خانہ کعبہ کا حج کریں جس کو وہاں تک راہ مل سکے۔ اور جو نہ مانے ( اور باوجود قدرت کے حج کو نہ جائے ) تو اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔
تشریح : اپنے معمول کے مطابق امیرالمومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے حج کی فرضیت ثابت کرنے کے لیے قرآن پاک کی آیت مذکورہ کو نقل فرمایا۔ یہ سورہ آل عمران کی آیت ہے جس میں اللہ نے استطاعت والوں کے لیے حج کو فرض قرار دیا ہے۔ حج کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ واصل الحج فی اللغۃ القصد وفی الشرع القصد الی البیت الحرام باعمال مخصوصۃ لغوی معنی حج کے قصد کے ہیں اور شرعی معنی یہ کہ بیت اللہ شریف کا اعمال مخصوصہ کے ساتھ قصد کرنا۔ استطاعت کا لفظ اتنا جامع ہے کہ اس میں مالی، جسمانی، ملکی ہر قسم کی استطاعت داخل ہے۔
حج السام کے پانچوں رکنوں میں سے ایک رکن ہے۔ اور وہ ساری عمر میں ایک بار فرض ہے۔ اس کی فرضیت 9 ھ میں ہوئی۔ بعض کا خیال ہے کہ 5ھ یا 6 ھ میں حج فرض ہوا۔ حج کی فرضیت کا منکر کافر ہے اور باوجود قدرت کے حج نہ کرنے والوں کے حق میں کہا گیا ہے کہ کچھ تعجب نہیں اگر وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مریں۔ حج کا فریضہ ہرمسلمان پر اسی وقت عائد ہوتا ہے جب کہ اس کو جسمانی اور مالی اور ملکی طورپر طاقت حاصل ہو۔ جیسا کہ آیت شریفہ من استطاع الیہ سبیلا سے ظاہر ہے۔
ترمذی شریف باب ماجاءمن التعلیظ فی ترک الحج میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے ۔قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ملک زاداً وراحلۃ تبلغہ الی بیت اللہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یہودیاً اونصرانیا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص کو خرچ اخراجات سواری وغیرہ سفربیت اللہ کے لیے روپیہ میسر ہو ( اور وہ تندرست بھی ہو ) پھر اس نے حج نہ کیا تو اس کو اختیار ہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ یہ بڑی سے بڑی وعید ہے جو ایک سچے مرد مسلمان کے لیے ہوسکتی ہے۔ پس جو لوگ باوجود استطاعت کے مکہ شریف کا رخ نہیں کرتے بلکہ یورپ اور دیگر ممالک کی سیروسیاحت میں ہزارہا روپیہ برباد کردیتے ہیں مگر حج کے نام سے ان کی روح خشک ہوجاتی ہے، ایسے لوگوں کو اپنے ایمان واسلام کی خیر مانگنی چاہیے۔ اسی طرح جو لوگ دن رات دنیاوی دھندوں میں منہمک رہتے ہیں اور اس پاک سفر کے لیے ان کو فرصت نہیں ہوتی ان کا بھی دین ایمان سخت خطرے میں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہوجائے اس کو اس کی ادائیگی میں حتیٰ الامکان جلدی کرنی چاہیے۔ اور لیت ولعل میں وقت نہ ٹالنا چاہیے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ممالک محروسہ میں مندرجہ ذیل پیغام شائع کرایا تھا۔
لقد ہممت ان ابعث رجالا الی ہذہ الامصار فینظروا کل من کان لہ جدۃ ولا یحج فیضربوا علیہم الجزیۃ ماہم بمسلمین ماہم بمسلمین۔(نیل الاوطار ج 4 ص 165 ) ’’میری ولی خواہش ہے کہ میں کچھ آدمیوں کو شہروں اور دیہاتوں میں تفتیش کے لیے روانہ کروں جو ان لوگوں کی فہرست تیار کریں جو استطاعت کے باوجود اجتماع حج میں شرکت نہیں کرتے، ان پر کفار کی طرح جزیہ مقرر کردیں۔ کیونکہ ان کا دعویٰ اسلام فضول وبیکار ہے وہ مسلمان نہیں ہیں۔‘‘
اس سے زیادہ بدنصیبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہوگی کہ بیت اللہ شریف جیسا بزرگ اور مقدس مقام اس دنیا میں موجود ہو اور وہاں تک جانے کی ہر طرح سے آدمی طاقت بھی رکھتا ہو اور پھر کوئی مسلمان اس کی زیارت کو نہ جائے جس کی زیارت کے لیے بابا آدم علیہ السلام سینکڑوں مرتبہ پیدل سفر کرکے گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کافروں کے مظالم سے تنگ آکر مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو رخصتی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کو چوما اور آپ وسط مسجد میں کھڑے ہوکر بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہوئے اور آبدیدئہ نم آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! تو اللہ کے نزدیک تمام جہاں سے پیارا وبہتر گھر ہے اور یہ شہر بھی اللہ کے نزدیک احب البلاد ہے۔ اگر کفار قریش مجھ کو ہجرت پر مجبور نہ کرتے تو میں تیری جدائی ہرگز اختیار نہ کرتا۔ )ترمذی (
جب آپ مکہ شریف سے باہر نکلے تو پھر آپ نے اپنی سواری کا منہ مکہ شریف کی طرف کرکے فرمایا۔’’واللہ انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ ولولا اخرجت منک ماخرجت ( احمد، ترمذی، ابن ماجہ ) قسم اللہ کی! اے شہر مکہ تو اللہ کے نزدیک بہترین شہر ہے، تیری زمین اللہ کو تمام روئے زمین سے پیاری ہے۔ اگر میں یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو کبھی یہاں سے نہ نکلتا۔‘‘
فضیلت حج کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من حج ہذا البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کما ولدتہ امہ (ابن ماجہ ص 213 ) یعنی جس نے پورے آداب وشرائط کے ساتھ بیت اللہ شریف کا حج کیا۔ نہ جماع کے قریب گیا اور نہ کوئی بے ہودہ حرکت کی وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوکر لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن پاک صاف تھا۔
ابوہریرہ کی روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔’’جو کوئی حج بیت اللہ کے ارادے سے روانہ ہوتا ہے۔ اس شخص کی سواری جتنے قدم چلتی ہے ہر قدم کے عوض اللہ تعالیٰ اس کا ایک گناہ مٹاتا ہے۔ اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے۔ اور ایک درجہ جنت میں اس کے لیے بلند کرتا ہے۔ جب وہ شخص بیت اللہ شریف میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں طواف بیت اللہ اور صفا و مروہ کی سعی کرتا ہے پھر بال منڈواتا یا کترواتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہوجاتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا۔‘‘ ( ترغیب وترہیب ص224 )
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ابن خزیمہ کی روایت ہے کہ جو شخص مکہ معظمہ سے حج کے واسطے نکلا اور پیدل عرفات گیا پھر واپس بھی وہاں سے پیدل ہی آیا تو اس کو ہرقدم کے بدلے کروڑوں نیکیاں ملتی ہیں۔
بیہقی نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ حج وعمرہ ساتھ ساتھ ادا کرو۔ اس پاک عمل سے فقر کو اللہ تعالیٰ دور کردیتا ہے اور گناہوں سے اس طرح پاک کردیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کو میل سے پاک کردیتی ہے۔
مسند احمد میں ابن عباس کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس مسلمان پر حج فرض ہوجائے اس کو ادائیگی میں جلدی کرنی چاہیے۔ اور فرصت کو غنیمت جاننا چاہیے۔ نہ معلوم کل کیا پیش آئے اے زفرصت بے خبر در ہرچہ باشی زود باش۔ میدان عرفات میں جب حاجی صاحبان اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دین ودنیا کی بھلائی کے لیے دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمانوں پر فرشتوں میں ان کی تعریف فرماتا ہے۔
ابویعلیٰ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جو حاجی راستے میں انتقال کرجائے اس کے لیے قیامت تک ہر سال حج کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
الغرض فرضیت حج کے بارے میں اور فضائل حج کے متعلق اور بھی بہت سی مرویات ہیں۔ مومن مسلمان کے لیے اسی قدر کافی وافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس مسلمان کو اتنی طاقت دے کہ وہ حج کو جاسکے اس کو ضرور بالضرور وقت کو غنیمت جاننا چاہیے اور توحید کی اس عظیم الشان سالانہ کانفرنس میں بلاحیل وحجت شرکت کرنی چاہیے۔ وہ کانفرنس جس کی بنیاد آج سے چار ہزار سال قبل اللہ کے پیارے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پاک ہاتھوں سے رکھی اس دن سے آج تک ہرسال یہ کانفرنس ہوتی چلی آرہی ہے۔ پس اس کی شرکت کے لیے ہر مومن مسلمان ہر ابراہیمی ہرمحمدی کو ہروقت متمنی رہنا چاہیے۔