رکن کی درجہ بندی: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
Gosha e Adab

نسیم حجازی (حج    1959ء-’’ پاکستان سے دیارِ حرم تک‘‘ سے اقتباس)
’’بارگاہ خداوندی کے جاہ و جلال کے تصور سے لرزتا ہوا اندر داخل ہوا۔ صحن میں پاؤں رکھتے ہیں خانہ کعبہ پر نظر پڑی اور مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا کہ اس کی چھت آسمان کو چھو رہی ہے !
سیکڑوں آدمی وہاں طواف کر رہے تھے۔ کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنا گوارا نہ تھا۔ جو طواف سے فارغ ہو چکے تھے ، ان میں کوئی حطیم کے اندر نفل پڑھ رہا تھا اور کوئی غلاف کعبہ تھام کر گریہ و زاری کر رہا تھا۔ کسی کو کسی کے ساتھ سروکار نہ تھا۔ کسی کو کسی کے ساتھ دلچسپی نہ تھی۔


وہ مختلف سمتوں سے آئے تھے ، لیکن وہاں مشرقی و مغربی ، کالے اور گورے ، امیر اور غریب ، ادنیٰ اور اعلیٰ کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ 
طواف شروع کیا ، میری خودفراموشی کا یہ عالم تھا کہ کبھی چلتے چلتے میری رفتار کم ہو جاتی اور کبھی میرے قدم تیز ہو جاتے ، لیکن دو تین چکر لگانے کے بعد میں سنبھل چکا تھا۔

خانہ کعبہ کے گرد سات چکر پورے کرنے اور ہر بار حجر اسود کو بوسہ دینے کے بعد باب الرحمة کے سامنے دعا شروع کی۔
وہاں شائد پہلی بار یہ خیال آیا کہ میں کون ہوں؟ اور کہاں سے آیا ہوں؟ اور اس کے ساتھ ہی میری آواز بیٹھ گئی۔ میں بڑی کوشش کے ساتھ رک رک کر دعائیہ کلمات دہرا رہا تھا لیکن ۔۔۔۔
اچانک میری قوت گویائی جواب دے گئی اور آنسوؤں کا ایک سیلاب جو نہ جانے کب سے اس وقت کا منتظر تھا ، میری آنکھوں سے پھوٹ نکلا۔‘‘

قدرت اللہ شہاب (حج1953ء -’’شہاب نامہ‘‘ سے اقتباس)
’’میں نے سن رکھا ہے کہ جو شخص حرم شریف میں داخل ہوتا ہے وہ اپنا جوتا ، گناہوں کی گھٹڑی ، اپنی دستار فضیلت اور اپنی بزرگی کا عمامہ دروازے کے باہر چھوڑ جاتا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جب وہ باہر آئے گا تو اس کا جوتا یا اس کے گناہوں کی گھٹڑی یا اس کی فضیلت کی دستار یا اس کی بزرگی کا عمامہ ۔۔۔ اس کو واپس ملے گا یا نہیں؟
میرے پاس حرم شریف کے باہر چھوڑنے کے لیے پاؤں میں ربڑ کے چپل اور سر پر گناہوں کی گھٹڑی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ میں نے دل و جان سے دونوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔
باب السلام کے راستے حرم شریف میں داخل ہو گیا۔ اندر قدم رکھتے ہی دم بھر کے لیے بجلی سی کوندی اور زمین کی کشش ثقل گویا ختم ہو گئی۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے گاڑی کو مضبوط بریک لگا کر میرے وجود کو پنکچرشدہ ٹائر کی طرح جیک لگا کر ہوا میں معلق کر دیا گیا ہو۔ میرے جسم کے اعضا کا ایک دوسرے سے رابطہ ٹوٹ سا گیا ہو ، ہاتھ بےلوچ ہو کر لٹک گئے اور سر بھنور میں پھنسے ہوئے خس و خاشاک کی طرح بےبسی سے چکر کاٹنے لگا۔ اس طرح اپاہج سا ہو کر میں طواف کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے بےساختہ لڑکھڑا کر وہیں بیٹھ گیا۔

===
ماہرالقادری (حج1954ء -’’کاروان حجاز‘‘ سے اقتباس)
’’لیجئے ! حدود حرم سے بھی کچھ آگے نکل آئے۔ تلبیہ پڑھنے میں آنکھیں بھی زبان اشک سے لے میں لے ملا رہی ہیں۔ مکہ کی آبادی آ گئی۔ رات کا وقت ہے ، ایسے میں جو ٹیلہ ، جو پہاڑی اور جو مکان بھی نظر آتا ہے ، عقیدت کہتی ہے کہ اسے دل میں اتار لیجئے۔
انسانیت کی تاریخ کا پہلا ورق اسی سرزمین پر مرتب ہوا۔
اسی شہر میں حق کی وہ آواز بلند ہوئی جس نے باطل کے جسم میں تھرتھری پیدا کر دی۔
یہ تاریخی شہر نہیں بلکہ خود تاریخ ساز ہے۔ اس شہر پر تاریخ کا ذرہ برابر بھی احسان نہیں بلکہ خود تاریخ پر اس شہر کا احسان ہے۔ تاریخ اس شہر سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اگر تاریخ سے مکہ کو نکال دیا جائے تو پھر تاریخ میں رہ کیا جائے گا۔
یا اللہ ! میں کہاں آ گیا ؟ یہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا ، مجھ سا پلید اور حرم مقدس میں ! مجھ سا خطاکار ، گناہگار اور معاصی سرشت اس مقام پر جہاں ہر زمانے کے اتقیاء و صلحاء ، پاک بازوؤں اور نیکو کاروں نے سجدے اور طواف کئے۔ یہ پیروں سے نہیں ، سر کے بل چلنے کا مقام ہے۔ یہاں کا جتنا بھی احترام کیا جائے کم ہے۔‘‘

ابوالحسن علی ندوی (حج1947ء –’’ شرق اوسط میں کیا دیکھا‘‘ سے اقتباس)
’’میں نے بچپن میں جس طرح لوگوں کو جنت اور اس کی نعمتوں کا بڑے شوق سے ذکر کرتے ہوئے سنا ، اسی طرح مکہ اور مدینہ کا تذکرہ بھی سنا تھا۔
جنت کو حاصل کرنے اور ان دونوں متبرک شہروں کو دیکھنے کی تمنا اسی وقت سے میرے دل میں کروٹیں لینے لگی تھیں۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک طویل عرصے کے بعد میں خود اس جگہ آ پہنچا جس کی زمین پر نہ تو سبزے کا فرش تھا اور نہ اس کی گودی میں ندیاں کھیلتی تھیں۔ جب میں نے حسن ظاہری سے خالی یہ سرزمین دیکھی تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ شہر مناظر سے کتنا تہی دست ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی سوچا کہ اس شہر نے انسانیت اور تمدن پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ اگر یہ شہر کا دامن گلکاریوں سے خالی ہے، روئے زمین پر نہ ہوتا تو دنیا ایک سونے کا پنجرہ ہوتی اور انسان محض ایک قیدی!
یہی وہ شہر ہے جس نے انسان کو دنیا کی تنگنائے سے نکال کر وسعتوں سے آشنا کیا۔ انسان کو اس کی کھوئی ہوئی سرداری اور چھنی ہوئی آزادی دلائی۔ اسی شہر نے انسانیت پر لدے ہوئے بوجھوں کو اتارا۔ اس کے طوق و سلاسل کو جدا کیا جو ظالم بادشاہوں اور نادان قانون سازوں نے ڈال رکھے تھے۔ وہ عزت دنیا کو دوبارہ ملی جو سرکشوں اور ظالموں کے ہاتھوں پامال ہو چکی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ یہاں انسانیت نے نیا جنم لیا اور تاریخ نئے سرے سے ڈھل کر نکلی۔‘‘


مولانا رفیع الدین مرادآبادی (حج1787ء -’’سفرنامہ حجاز ‘‘سے اقتباس)
’’سعدیہ سے چل کر دو دن بعد بوقت چاشت 14-شوال بروز دوشنبہ مکہ معظمہ میں حاضر ہوئے۔ چونکہ چار کوس سے زیادہ پیادہ پا اور سر و پا برہنہ چلا تھا اور آفتاب بہت گرم تھا، سنگریزے اور ریگِ راہ جل رہے تھے اس لیے بہت مشقت برداشت کرنا پڑی لیکن دیدار جمال کعبہ سے تمام عمر کی کلفتوں کا ازالہ ہو گیا۔
اس مورود مسعود میں آنے کے وقت مشاقان جمال مصطفوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مواضع اقدام نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشاہدے سے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مقام پر رونق افروز ہونے کے تصور سے دل میں وہ نور اور باطن میں وہ سرور پیدا ہوتا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔
طالب صادق پر کہ جس کی چشمِ بصیرت کحل ہدایت سے سرمگیں ہو اور اس کا دیدہ باطن نور عنایت سے منور ہو ، یہ بات پوشیدہ نہیں کہ حرمین اور اس کے نواح کے پہاڑوں ، جنگلوں ، وادیوں اور مکانوں میں جو کہ منظور نظر سعادت اثر رہے اور ناظر جمال ، بہجت مال ہوئے ہیں ، جمال محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اثر سے کس قدر نورانیت و روحانیت نمایاں ہے۔‘‘