شمارہ نمبر 25

Harf e awwal

عیدالفطرپھر سایۂ فگن ہورہی ہے۔ یہ شکر کادن ہے۔اللہ کی نعمتوں کویاد کرکے مسرورہونے کادن ہے۔اللہ نے رمضان کامہینہ امتحان کے لیے دیاتھا۔عبادت وریاضت کے اس امتحان سے ہم اسی کی توفیق اوراسی کی دی ہوئی ہمت سے گزرآئے ہیں۔چاہے روحِ عبادت میں بہت کمی تھی مگر اس کی مہربانی سے گرمی کے روز ے بھی رکھے گئے،اسی کے فضل سے تروایح بھی مکمل ہوئی ۔قرآن مجید سننے سنانے اورپڑھنے پڑھانے کاوقت ملا۔عید کادن اس لیے کہ ہم اس توفیق پر توفیق دینے والے کاشکر اداکریں اورآئندہ اس کے فرماں بردار بن کررہنے کاعہد کریں۔دوسری قومو ں کے تہواروں میں اخلاقیات کاجنازہ نکال دیاجاتاہے۔شراب خوری، رقص وسرود اوربدکاری عام ہوتی ہے۔اللہ کے دیے ہوئے اس تہوار عیدالفطر میں عفت اور پاکیزگی ہے۔عبادت اورروحانیت ہے۔دعا اورعاجزی ہے۔شائستہ اورباوقار میل ملاپ ہے۔صدقہ فطر کے ذریعے سخاوت ،ہمددری اورغریب پروری کے مناظر عام کیے گئے ہیں۔

الحمدللہ رمضان گزارنے سے زمانے کے خلاف چلنے کی کچھ عادت نصیب ہوگئی ہے۔اس عادت کو تھوڑی سی ہمت کے ساتھ پوراسال برقراررکھاجاسکتاہے۔کمی کوتاہی توضرورہوگی کہ رمضان سی برکتیں باقی سال میں کہاں۔نفس کے ساتھ شیطان بھی لگاہوگا۔مگر پھر بھی انسان کے ارادے میں اللہ نے بڑی طاقت رکھی ہے۔انسان نیکی کاعزم مصمم کرلے تواللہ کی خاص مدد شاملِ حال ہوجاتی ہے۔ رمضان میں ہم نے ایساباربارکیااوراس حقیقت کاعملی ثبوت ہمیں ملتا رہا۔ جون کے گرم روزے ۔ کہاں ہم اورکہاں ہماری اوقات۔ دوگھنٹے بھی بغیر پانی کے نہیں رہ سکتے مگر جب روز ے کی نیت کرلی تو دس پندرہ گھنٹے بھی ویسی پیاس نہیں لگتی جیسی غیر رمضان میں ایسی گرمی سے ایک گھنٹے میں لگ جاتی ہے۔ فقط میں اورآپ نہیں کروڑوں مسلمان اس وجدان سے گزرے ہیں اورہرسال گزرتے ہیں۔
یہ نیک ارادے کے ساتھ اللہ کی فوری عنایت کاکھلا ثبوت نہیں تواورکیا ہے۔ یہ اسلام کامعجزہ ہے ۔ہم ایسی مثالیں پورے سال قائم کرسکتے ہیںں بشرطیکہ رمضان کے سکھائے ہوئے سبق کویادرکھیں۔ 
عید کی یہ مسرتیں ایسے موقع پر نصیب ہوئی ہیں کہ ہمارے اعمال اچھے ہیں نہ حالات۔ قحط، افلاس، بھوک ،تنگ دستی ،جہالت ،امراض،حوادثِِ سماوی اور ہجرت وخانہ بدوشی کے مناظر ہرطرف ہیں ۔ کشمیر،عراق،افغانستان ،فلسطین،شام ،مصر اوربرما میں مسلمانوں پر شبِ غم کااندھیرا طاری ہے۔ اپنے ملک کاجوحال ہے سب کے سامنے ہے۔ مگرا س کے باوجود ،ہم عید کی خوشیاں منائیں گے کہ اللہ نے یہیحکم دیاہے۔ راحت کی حالت میں خوش ہونا کون سی بڑی بات ہے۔مزاتب ہے کہ پریشانی ، مصیبت،تکلیف اورآزمائش کی حالت میں بھی انسان کاحوصلہ برقراررہے ،چاہے اندرسے آدمی ٹوٹ رہاہو،مگر چہرے کی بشاشت میں فرق نہ آئے۔ خاص کراس وقت جب کہ خود ہماراخالق ومالک بھی ہم سے یہی چاہتاہو۔ اس کی عین منشاء ہے کہ ہم بدترین حالات میں بھی اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کہ رحمتِ الٰہیہ سے مایوسی ،کفار کی خصلت ہے۔ اس کی رحمت نے ہمیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ہم نے جب بھی سچے دل سے اسے پکاراہے،اس نے ہماری فریاد سنی ہے۔ہماری دست گیری فرمائی ہے۔ انفرادی حوادث ہوں یااجتماعی ، اس کی رحمت ہر بحران کودورکرسکتی ہے۔اس کی نصرت بڑی سے بڑی مخالف طاقت کوملیامیٹ کرسکتی ہے۔ پس ہم کیوں بے ہمت ہوں۔ اس کی ذات سے مایوس کیوں ہوں۔ جبکہ اس کی رحمت پکار پکارکر کہہ رہی ہے ۔
ولاتہنو ا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین
 (تم کم ہمت مت بنو اورغم نہ کرو،تم ہی غالب ہوگے ،اگر تم اہلِ ایمان ہو۔)