ہمارے بڑوں کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ ان کے ہاں ’’علم برائے علم‘‘ کے بجائے ’’علم برائے عمل‘‘ پرزور دیا جاتا تھا ، محض معلومات ،مطالعہ اور تعلیمی قابلیت ان کے نزدیک کوئی قابل رشک بات نہ تھی بلکہ وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ جو کچھ پڑھا اورسیکھاجائے اس کی عملی مشق بھی ہو۔
چھوٹوں پر وہ اس سلسلے میں پوری نگاہ رکھتے تھے ۔ اگر اس میں وہ کوئی کمی محسوس کرتے تو حکمت وبصیرت کے ساتھ اس کی اصلاح کرتے۔ہمارے بزرگوں کے گھروں میں عملی واخلاقی تربیت کا یہ حال تھا کہ بچے بھی تہجد کے پابند ہوا کرتے تھے، لڑکے تمام نمازوں میں جماعت اور تکبیر اولیٰ کی پابندی کیا کرتے، لڑکیاں گھروں میں اذان سنتے ہی وضو بنانے لگتیں۔بلا ناغہ قرآنِ مجید کی تلاوت کیا کرتی تھیں، مسنون دعاؤں کااہتمام ہوتاتھا،بچے بڑوں کا ادب ملحوظ رکھتے تھے۔صرف والدین ہی نہیں بڑے بھائی ،بڑی بہن کو بھی ادب سے بلاتے تھے۔ قلم ،کتاب کاپی روشنائی وغیرہ کابھی احترام کرتے تھے۔
کلاس فیلوزکے ساتھ ہمدردی وغم خواری کا برتاؤ ہوتاتھا۔ ٹیچرزکی زندگی کا بڑے غور اور گہرائی سے مشاہدہ کر کے چال چلن اور عادات واطوار کو ان کے مطابق بنانے کی کوشش ہوتی تھی۔
مگر اب وہ باتیں خواب وخیال ہوگئیں۔بڑوں کوبچوں بچیوں کی تربیت کی کوئی فکر ہے نہ بچوں کو بڑوں کاکوئی لحاظ ہے۔ ہر کوئی سمارٹ فون لیے واٹس ایپ،فیس بک اوردوسری محفلوں میں فضول گپ شپ کررہاہے ،فنی ویڈیوزدیکھ کر ٹائم پاس کررہاہے۔ کوئی مقصد ہے زندگی کانہ کوئی لطف۔
علم سے کورے، لفاظی کے ماہر ین کسی دور میں کم نہیں رہے، مگر قوم کی سربلندی کا کام ہمیشہ انہی خوش قسمت بندوں کے ہاتھوں انجام پایا ہے جنہوں نے علم بھی اچھا حاصل کیاہو اور ساتھ ساتھ عمل کا بھی اہتمام کیا ہو اوراپنے چھوٹوں کوبھی پوری سنجیدگی سے اس کی تربیت دی ہو۔دنیا میں وہی لوگ چمکے ہیں اوراللہ کے ہاں بھی وہی مقبول ہیں جواپنے تزکیہ سے غافل نہ ہوں، جو سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں محسوس کرتے ہوئے، آخرت میں اپنی جواب دہی کے تصور سے لرزہ براندام رہیں۔
ہمارے اکابر کایہ حال تھاکہ حضرت ابو داؤد رحمہ اللہ فرماتے تھے: ’’مجھے ڈرلگتا ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق کے سامنے مجھے پکارا جائے، میں کہوں اے رب ! میں حاضر ہوں،‘‘ پھر مجھ سے یہ سوال ہوجائے کہ اپنے علم پر کیا عمل کیا تھا؟
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تھے علم عمل کی طرف دعوت دیتا ہے، اگر آدمی اس کی (دعوت کو قبول کرتے ہوئے) عمل کرنے لگے تو اس کا علم باقی رہتا ہے ورنہ علم ضائع ہوجات اہے۔
حضرت حسن بصر ی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ تم ایسے مت بنو کہ علماء کے علم کو حاصل کرنے والے علماء کے اقوال زیریں جمع کرنے والے ہو، لیکن عمل کے معاملہ میں احمقوں کی مانند ہو۔
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے تھے ’’میں اس امت کے بارے میں منافق عالم سے بہت ڈرتا ہوں۔‘‘ لوگوں نے دریافت کیا: ’’حضرت ! منافق عالم کون؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’زبان کاعالم۔۔۔ دل اور عمل کا جاہل۔‘‘
حاتم اصم رحمہ اللہ فرماتے تھے ’’قیامت کے دن اس عالم سے زیادہ حسرت زدہ کوئی نہ ہوگا، جس سے دوسروں نے علم سیکھا اور عمل کرکے کامیاب ہوگئے اور وہ خود عمل نہ کرنے کی وجہ سے ناکام رہا۔‘‘
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ کا مقولہ مشہور ہے کہ مجھے تین افراد پر بڑا رحم آتا ہے۔ ایک وہ جو قوم کا سردار ہو پھر ذلیل ہوگیا ہو۔ دوسرا وہ شخص جو مالدار ہو، پھر فقیر ہوجائے۔ تیسرا وہ عالم جس سے دنیا کھیل رہی ہو (یعنی جو دنیا کے پیچھے پڑکر ذلیل ہورہا ہو)
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
عَجِبْتُ لِمُبْتَاعِ الضَّلَالَۃِ بِالْھُدیٰ
وَمَنْ یَّشْتَرِیْ دُنْیَا ہُ بِالدِّیْنِ اَعْجَبْ
مجھے اس شخص پر حیر ت ہے جو ہدایت کے بدلے گمراہی خریدے اور اس زیادہ بھی ز یادہ اس شخص کے عمل پر ہے جو دین کے بدلے دنیا خریدتا ہے۔
اللہ ہمیں صحیح علم اورصحیح عمل نصیب فرمائے ۔آمین