آپﷺ گفتگو کیسے کرتے تھے؟
رسول اللہﷺ اپنا وقت فالتو باتوں میں برباد نہیں کرتے تھے۔ آپﷺ زیادہ تر خاموش رہتے۔ ایسا معلوم ہوتا جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔ آپﷺ اسی وقت گفتگو فرماتے جب بولنے کی ضرورت ہوتی۔ آپﷺ جلدی جلدی اور کٹے کٹے لفظ نہیں بولتے تھے۔ آپﷺ کی گفتگو بہت صاف اور واضح ہوتی۔ نہ آپ ضرورت سے زیادہ لمبی بات کرتے اور نہ اتنی مختصر ہوتی کہ سمجھ میں نہ آتی۔ آپ کے جملے بہت نپے تلے ہوتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ٹھہر ٹھہر کر بولتے۔ ایک ایک فقرہ اس طرح واضح ہوتا کہ سننے والے کو پوری تقریر یاد ہو جاتی۔ آپﷺ کی آواز بلند تھی اور اچھی طرح سنی جا سکتی تھی۔
آپﷺ کسی کی بات بیچ سے کاٹتے نہ تھے بلکہ پوری بات کہنے کا موقع دیتے اور توجہ سے سنتے تھے۔
آپﷺ مسکراتے ہوئے نرم لہجہ میں بات کرتے تھے۔ کسی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی یا چاپلوسی کی باتیں زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ آپﷺ ہمیشہ انصاف کی بات کہتے تھے اور منہ دیکھی بات پسند نہیں کرتے تھے۔ آپﷺ کٹ حجتی سے پرہیز کرتے تھے۔
دشمن کو بھی نہ تلخ جواب آپ ﷺ نے دیا
اللہ رے حلاوتِ گفتارِ مصطفےٰ
(ابو المجاہد زاہد)
٭٭٭
آپﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے
رسولﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے اور جھوٹ کے پاس بھی کبھی نہ پھٹکتے تھے۔ آپ کی زبانِ مبارک سے کبھی کوئی غلط بات سننے میں نہیں آئی یہاں تک کہ مذاق میں بھی کوئی جھوٹی بات آپﷺ کی زبان سے نہیں نکلتی تھی۔ آپﷺ کے دشمنوں نے آپﷺ پر طرح طرح کے الزامات لگائے مگر آپ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کر سکے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ابو جہل آپ کا کتنا بڑا دشمن تھا۔ وہ بھی کہا کرتا تھا:
محمدﷺ ! میں تم کو جھوٹا نہیں کہہ سکتا کیوں کہ تم نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں، البتہ جو باتیں تم کہتے ہو ان کو میں ٹھیک نہیں سمجھتا۔
یاد کیجئے اُس واقعہ کو جب حضورﷺ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش والوں سے یہ سوال کیا تھا:
اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر آ رہا ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟
سب نے ایک زبان ہو کر جو جواب دیا تھا وہ آپ کے صادق القول ہونے کی دلیل ہے۔
بولے ہاں! ہم ضرور یقین کریں گے کیوں کہ تم کو ہمیشہ سے ہم نے سچ ہی بولتے دیکھا ہے۔
جانِ حیات ہے ترے اخلاق کی جھلک
خود زندگی ہے موت کا ساماں ترے بغیر
(ماہر القادری)
٭٭٭
آپﷺ وعدے کے پکے تھے
پیارے نبیﷺ بات کے دھنی تھے۔ جو وعدہ فرما لیتے تھے اسے پورا کر کے رہتے تھے۔ آپ کی پوری زندگی سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جا سکتا جس سے عہد شکنی ثابت کی جا سکے۔ دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اعتراف کرتے تھے۔
تاریخ کو دیکھیے۔ قیصرِ روم ابو سفیان سے دریافت کرتا ہے کیا محمد نے کبھی بد عہدی بھی کی ہے؟ ابو سفیان کا جواب نفی میں سن کر وہ کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔
صلح نامۂ حُدیبیہ کی ایک شرط تھی کوئی مکہ والا مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو واپس کر دیا جائے گا۔ ٹھیک اسی وقت جب یہ عہد نامہ تحریر کیا جا رہا تھا ابو جندل رضی اللہ عنہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر مدینہ آ جاتے ہیں اور رسول اللہﷺ کو اپنی حالتِ زار دکھا کر فریادی ہوتے ہیں۔ یہ منظر بہت ہی درد انگیز اور جذباتی تھا۔ تمام مسلمان تڑپ اٹھتے ہیں اور سفارش کرتے ہیں، لیکن حضورﷺ نہایت اطمینان اور پُر وقار انداز میں مخاطب ہوتے ہیں ______ ابو جندل ! تم کو واپس جانا ہو گا، میں بد عہدی نہیں کرسکتا۔ الفاظ کرب و الم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ابو جندل رضی اللہ عنہ آپ کو حسرت بھری نظر سے دیکھتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں۔
٭٭٭
آپﷺ بد زبانی سے پرہیز کرتے تھے
بد زبانی ایسی بری عادت ہے کہ جس میں یہ عادت پائی جاتی ہے لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں، وہ شخص دوسروں کی نظر سے گر جاتا ہے، سب اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ بد زبان آدمی سے لوگ ملنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ خدا کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بُرا شخص وہ ہو گا جس کی بد زبانی کے ڈر سے لوگ اس کو چھوڑ دیں۔
بد زبانی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے حالانکہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔
بد زبانی ہی کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے جبکہ حضورﷺ نے صاف صاف فرمایا ہے کہ (مسلمان کا) مسلمان کو برا بھلا کہنا فِسق ہے اور اس کے ساتھ لڑنا کفر ہے۔
ایک بار رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجے۔ صحابہ رضی نے حیرت سے پوچھا، یہ کیسے ممکن ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ‘اس طرح کہ جب کوئی کسی کے باپ کو برا کہے گا تو جواب میں وہ اُن کے ماں باپ کو برا کہے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بد زبانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
لہجۂ لب سے ہوئے سنگ بھی موم
کتنا پیار آپ کی گفتار میں ہے
(اقبال صفی پوری)
٭٭٭
آپﷺ کو غیبت سے نفرت تھی
غیبت سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں، اچھے دل برے ہو جاتے ہیں۔ عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے تو قرآن کریم میں غیبت کرنے والے کی مثال ایسے شخص سے دی گئی ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔
___ توبہ! توبہ _____ کتنی گھناؤنی عادت ہے کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنا۔
غیبت کے بارے میں پیارے نبیﷺ سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! غیبت کس کو کہتے ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا تمہارا اپنے بھائی کی اُن باتوں کا ذکر کرنا جن کو وہ سنے تو اُسے ناگوار گزرے۔
پھر پوچھا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو جس کو بیان کیا گیا ہے؟
آپﷺ نے جواب دیا کہ ___ اگر وہ عیب اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ عیب اس میں نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان (جھوٹا الزام) لگایا۔
اللہ تعالیٰ اس بری عادت سے ہم کو بچائے۔ آمین!
ترے کردار پر دشمن بھی انگلی رکھ نہیں سکتا
ترے اخلاق تو قرآن ہی قرآن ہے ساقی
ماہر القادری
٭٭٭
آپﷺ میٹھے بول بولتے تھے
رسول اللہﷺ جب بھی کسی سے بات کرتے تو اس کے منصب اور ادب و احترام کا خیال رکھتے تھے۔ اس سے آپس کے تعلقات اچھے رہتے ہیں اور میل جول بڑھتا ہے۔ اچھی عادتوں میں سلام کرنا، شکریہ ادا کرنا، مزاج پوچھنا، نصیحت کرنا اور نیکی کی تعلیم دینا بھی شامل ہے۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ زبان سے اچھی بات نکالے ورنہ چپ رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم سچے مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں بد کلامی اور ایسی باتوں سے بچنا چاہیے جس سے دوسروں کا دل دُکھے۔
ایک بار آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اچھی بات صدقہ ہے یعنی میٹھی زبان استعمال کر کے دوسروں کے دل جیت لینا بہت بڑی نعمت ہے۔
ایک صحابی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! نجات کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟۔۔۔۔۔
آپﷺ نے فرمایا اپنی زبان پر قابو رکھو۔ یعنی پہلے تولو پھر بولو۔ تاکہ تمہاری باتوں سے کسی کا دل نہ دکھنے پائے اور تمہاری زبان سے ایسے کلمے نہ ادا ہوں جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔
ایک دفعہ آپﷺ نے جنت کی خوبیاں بیان فرمائیں۔ ایک صحابی بے تاب ہو کر بولے:
یا رسول اللہ ! یہ جنت کس کو ملے گی؟ حضورﷺ نے فرمایا جس نے اپنی زبان سے بری باتیں نہیں نکالی ہوں گی۔
دیکھیے جنت حاصل کرنے کا کتنا آسان نسخہ ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ اپنی زبان سے کوئی بری بات نہ نکالیں۔ (عرفان خلیلی صفی پوری کی کتاب ’’آپ ﷺ کیسے تھے؟‘‘ سے ماخوذ)
٭٭٭