۱۴۳۷ھ ختم ہوااور۱۴۳۸ھ شروع۔اسلامی تقویم کے لحاظ سے ہم ایک سال اورآگے بڑھ گئے ہیں۔مگر اس ایک سال میں ہم نے انفرادی اوراجتماعی طورپر خیر کے اہداف میں کتنے نمبر مزید لیے؟اس پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہجری سال محرم سے شروع ہوتاہے۔اس مہینے کے بہت سے فضائل ہیں۔مگر جس وجہ سے یہ مہینہ عام طورپرمسلم معاشرے میں یادرکھاجاتاہے ،وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت یقیناحق کے لیے تھی۔وہ حق کے داعی اورمظلوم تھے اوریزیدی حکومت ظالم۔کربلامیں جوسانحہ دس محرم کوپیش آیا ،وہ ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔مگراس کی یاد منانے کایہ طریقہ نہیں کہ ہم چند رسموں کودین بنالیں ،شورشراباکرکے چنددنوں کے لیے اپنی حسینیت کا چرچا کریں اورپھر ساراسال حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اسوہ حسنہ کے بالکل خلاف زندگی گزاریں۔یہ بے دینی کی زندگی حسینیت نہیں بلکہ عین یزیدیت ہے۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کے بہت سے پہلو ہیں مگر............
اس کی چوٹی اورعروج ،وہ لمحہ ہے جب وہ بحالتِ نمازسجدے میں تھےاوردشمنوں نے ان کاسرقلم کردیا۔
حضر ت حسین رضی اللہ عنہ نے تیروں اورتلواروں کے سائے میں بھی نمازنہ چھوڑی مگرہم اذان کی آواز سنتے ہیں۔پھربھی عورتوں کو اپنے پرسکون گھر اورمردوں کوقریبی مسجد میں بھی نمازا داکرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ ہمیں کوئی فکرنہیں کہ ہمارے بچے اوربچیاں نماز پڑھتے ہیں یانہیں ۔بلکہ انہیں نماز آتی بھی ہے یانہیں۔ یہ کون سی حسینیت ہے؟
سنیے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ۔
’’ اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں یعنی سات سال کے بچّے کو نماز پڑھنے کی تاکید کرنا شروع کرو اگرچہ اس کے ذمے نماز فرض نہیں ہوئی لیکن اس کو عادی بنانے کے لئے سات سال کی عمر سے تاکید کرنا شروع کردو اور جب دس سال کی عمر ہو جائے اور پھر بھی نماز نہ پڑھے تو اس کو نماز نہ پڑھنے پر مارو۔‘‘ (جامع الاصول:۵/۸۷)
سات سال کا اس لئے کہا گیا کہ سات سال سے کم عمر کے بچّے کو مسجد میں لانا ٹھیک نہیں۔اسی طرح اس سے پہلے اسے نماز نہ پڑھنے پر ڈانٹنایا دباؤ ڈالنابھی درست نہیں۔ البتہ کلمے اور نماز کے الفاظ یاد کرانے کاسلسلہ تین چار سال کی عمر سے شروع ہوجاناچاہیے۔پانچ چھ سال کی عمر میں تھوڑی تھوڑی نماز کی مشق کاآغاز ہوجاناچاہیے۔ا س طرح سات سال کی عمر میں بچے اور بچیاں ان شاء اللہ باقاعدہ نماز پڑھنے کے قابل بن جائیں گے۔
سات سال کی عمر سے پہلے بچّے کو مانوس کرنے کے لئے مسجد میں بھی لاسکتے ہیں لیکن خیال رہے کہ وہ مسجد کو گندگی وغیرہ سے ملوث نہیں کرے گا ۔
ہمارے پیارے مذہب اسلام کی تعلیمات افراط و تفریط سے پاک ہیں، اسلام نے زندگی کے ہر ہر موڑ پر اور تمام شعبوں میں ’’اعتدال‘‘ سے کام لینے کا جو سنہری اصول بتایا ہے اسے ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے۔ نمازکی تعلیم و تربیت میں بھی یہی اصول مَدِّ نظر رہنا چاہئے کہ نہ ہی ایسی بے جاسختی اور تشدد ہو کہ بچے بالکل اکتا کر بغاوت پر اتر آئیں یا باغی تو نہ ہوں مگر گھٹ گھٹ کر ہمیشہ کے لئے ’’دبّو‘‘ بن کر رہ جائیں اور نہ ہی اس قدر ڈھیل دینا چاہئے کہ بچے بالکل شتر بے مہار بن جائیں۔تربیت ٹھیک ہوگی تو بچے بھی ان شاء اللہ خوشی خوشی پکے نماز ی بن جائیں گے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرنے کابہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم سچے مسلمان بنیں اوراس کاپہلازینہ یہ ہے کہ ہم سب پہلے پکے نمازی بنیں اوراپنے بچوں کوبنائیں۔