پہلے زمانے، ملنے ملانے اور تیمارداری کے حوالے سے بہت اچھے ہوتے تھے۔ جب کوئی بزرگ بیمار ہو جاتا تو سارا کا سارا خاندان اس کو دیکھنے کے لیے چلا آتا۔ کوئی پھل لا رہا ہے۔ کوئی دیسی گھی یا مکھن کی چاٹی لیے چلا آرہا ہے تو کوئی اپنے کنوئیں کا تازہ پانی ہی گاؤں کے مولوی صاحب سے دم کروا کر لے آیا ہے۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں مہمانوں کی تواضع کا انتظام سنبھال لیتیں تو لڑکیاں بالیاں بڑے سے صحن سے لے کر باورچی خانے کے چکر لگاتی رہتیں۔ چھوٹے بچوں کو بار بار مردان خانے کی جانب دوڑایا جاتا۔ اتنی رونق ، اتنی دیکھ بھال اور اتنی محبت و خلوص پا کر اسّی سال کے بڑے بوڑھے بھی گاؤں کے سادہ سے حکیم کی دوا کھا ئے بھلے چنگے اٹھ بیٹھتے تھے۔
یہ سب احساس کی دولت تھی جو پہلے پہلے ہر ایک کے دل میں جاگزیں ہوتی تھی۔ آج ہم سب بڑے گھروں اور گاڑیوں والے تو ہیں لیکن احساس کی دولت سے یکسر محروم ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے۔ ایک فوتگی ہو گئی۔ وہاں جانا ہوا۔
ایک رشتے کی پھوپھو کی بیماری کا قصہ چھڑ گیا۔ وہ ہارٹ پیشنٹ ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔ آپ یقین کریں کوئی ایک آدھ منٹ تک سبھی نے ایک دوسرے سے ان کا حال پوچھا اور بتایا لیکن کسی نے یہ نیت تک ظاہر نہیں کی کہ بھئی اپنی ذاتی گاڑی میں یہاں تک آئے ہیں ۔ وہ ہسپتال تو نزدیک ہی ہے ۔ واپسی پر ان کو بھی دیکھتے چلیں۔ ان کی سگی بھانجیوں کو بھی یہ نہیں پتہ تھا کہ بیماری کی اصل نوعیت کیا ہے بس ہر ایک کو یہ بتاتی پھر رہی تھیں کہ دل کی بیماری ہے۔ کسی نے رسماً پوچھ ہی لیا وارڈ نمبر بتا دیں تو وہ بھی کسی ایک رشتہ دار کو معلوم نہیں تھا۔
کیا تھا کہ ہم سب رشتہ دار جو وہاں اکھٹے ہوئے تھے ، مل کر ہسپتال چلتے ۔ ان کو دیکھنے جاتے۔ کوئی پھل لے جاتا کوئی ان کے لیے تحفے یا کچھ پھول ہی لے جاتا۔ سب ان کا حال پوچھتے ۔ ان کے آگے سر جھکا کر ان سے دعائیں لیتے اور واپس آجاتے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ وہ بالکل ٹھیک ہو جاتیں لیکن کیا ان کا دل خوش نہ ہوتا؟ کیا ان کو سکون نہ ملتا؟ کیا ان کی آنکھوں میں چمک نہ آجاتی؟ کیوں ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں۔ سگی خالہ ، سگی پھوپھو ، سگی چچی جان کے لیے بھی ہمارے پاس وقت نہیں رہا ۔ وقت ہے تو بس اس لیے کہ صبح جاب پر چلے جائیں، عورتیں گھر کی صفائیوں اور کھانے پکانے میں لگ جائیں پھر بچے آجائیں پھر ان کے والد۔ رہ گیا ویک اینڈ تو وہ ہم لوگوں نے یا تو سونے کے لیے رکھا ہوا ہے ، یا میکے اور سسرال جانے کے لیے ، یا بچوں کے ساتھ میکڈونلڈ اور کے ایف سی جانے کے لیے۔
مجھے لگتا ہے ہم سب کسی نہ کسی کے مرنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم سنتے ہیں فلاں پھوپھو یا فلاں خالو تو بڑے سخت بیمار ہیں۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ تو ہم دل ہی دل میں پلاننگ شروع کر دیتے ہیں۔ ہمم! یعنی کبھی بھی کوئی خبر آسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے مجھے اپنے اور بچوں کے اچھے والے کپڑے تیار رکھنے چاہییں۔ ہاں مشین بھی کل ہی لگالیتی ہوں۔ عید والا سوٹ تو بھانجے کے عقیقے پر پہن لیا تھا۔
ہم یہ ایک لمحے کے لیے نہیں سوچتے کہ بیمار خالہ جان کو ہماری کتنی ضرورت ہے۔ ان کی آنکھیں وارڈ کے دروازے کے سفید پردے پر ٹکی رہتی ہیں۔ جیسے ہی پردہ ہٹتا ہے وہ سمجھتی ہیں شاید میری وہ والی بھانجی آئی ہوگی جسے میں نے بچپن میں گودوں کھلایا تھا۔پھپھو جان سمجھتی ہوں گی ۔ ہو سکتا ہے یہ میرے بھتیجے آئے ہوں ۔ چلو شکر ہے ان کو اپنی بیویوں سے فرصت تو ملی۔ آخر مجھے دیکھنے تو آئیں گے ہی۔ ان کی ماں بیمار ہو گئی تھی تو میں ہی ان کو اپنے گھر لے آیا کرتی تھی۔ خالو اپنی ڈرپ کو قطرہ قطرہ گرتے سوچتے ہوں گے ہو سکتا ہے آج وزٹنگ ٹائم میں میرا وہ والا بھتیجا آئے جس کی نوکری کے لیے میں نے بڑی تگ و دو کی تھی۔ نانا جان خواب دیکھتے ہوں گے ان کی سب شادی شدہ نواسیاں اکھٹی ان سے ملنے چلی آئی ہیں۔ ان کے اردگر د کھڑی ہیں۔ مسکرا رہی ہیں اور وہ باری باری سب کے سر پر ہاتھ رکھ رہے ہیں۔
لیکن نہیں!! آنکھیں ترس جاتی ہیں اپنوں کو دیکھنے کے لیے ۔ ہونٹ سوکھ جاتے ہیں دعائیں دینے کے لیے۔ انتظار انتظار ہی رہتا ہے حتیٰ کہ آخری سانس بھی ایک ہچکی کے ساتھ نکل جاتی ہے۔ پھر ! ہاں پھر سب آجاتے ہیں۔ اچھا! اوہو! بہت افسوس ہوا ! آئے ہائے! ایک مہینے سے ایڈمٹ تھے۔ اوہ! اچھا!پھیپھڑوں میں پانی تھا۔ ہائے! بس جی! زندگی اتنی ہی تھی۔ کوئی نہ کوئی بہانہ تو بننا ہوتا ہے ۔ کیا کریں۔ اللہ نے مرنے والے کی مشکل آسان کی ہے جی! یوں سمجھ لیں! کلمہ شہادت! لو جی! جنازہ اٹھا کے لے گئے۔ مرنے والے کی بیٹیوں اور بہوؤں نے رت جگی آنکھوں، سیاہ ہلکوں اورصدمے سے ہلکان دلوں کے ساتھ بریانی کی پلیٹیں بانٹیں شروع کر دی ہیں۔ہم سب رشتہ دار عورتیں سر جھکا کر جلدی جلدی چاولوں میں بوٹی ڈھونڈنے میں مصروف ہیں اور دل میں سوچ رہی ہیں لو جی! سارے بیٹے اچھا کماتے کھاتے ہیں۔ باپ فوت ہوا ہے۔ کم از کم بریانی میں چکن توزیادہ ڈلوالیتے ۔ یہ کیا کہ سینے کی بوٹی ہی ملی مشکل سے۔ ہونہہ!
ابھی جب میں چائے کاک کپ دوبارہ گرم کرنے کے لیے کچن میں گئی ہوں تو سیب کے چھلکوں کے گرد چند چیونٹیاں اکھٹی ہورہی تھیں۔ میرے ذہن میں یکدم آیا دو تین سے سپرے نہیں کیا۔ اس لیے دوبارہ سے چیونٹیاں آنے لگی ہیں۔اب سوچ رہی ہوں کاش ایک سپرے کسی مارکیٹ سے احساس اور محبت کا بھی مل جایا کرتا جو ہم جلدی سے اپنے دلوں پر کر لیتے کیونکہ بے حسی اور خودغرضی کی چیونٹیاں ہمارے دلوں کو کب سے کھا چکی ہیں۔