ہدایت کے سنگِ میل: ’’تم امّ   عبداللہ ہو!‘‘

سیدہ ساجدہ طیبہ طاہرہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ،تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری مقدس زوجہ محترمہ ہیں ۔آپ کا نام عائشہ اور کنیت ام عبداللہ ہے آپ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام عبداللہ ،تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی رکھی تھی جبکہ آپ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بغرض تحنیک بحضور نبوی پیش  کیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا، یہ عبداللہ ہے اور تم ام عبداللہ ہو۔(فتح الباری)
آپ کے والد ماجد کا نام امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ...

ہے اور والدہ ماجدہ کا نام ام رومان زینب بنت عامر ہے ،جن کا انتقال ۶ھ میں ہوا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت کے چار برس بعد پیدا ہوئیں۔ ۱۰ھ بعثت میں حضورﷺ کے نکاح میں آئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف اس وقت چھ سال کی تھی حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد خولہ بنت حکم کی وساطت سے نکاح ہوا۔چار سودرہم مہر مقرر ہوا ۔نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم تین سال مکہ میں مقیم رہے جب سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ساتھ تھے ۔اہل و عیال مکہ چھوڑ کر آئے تھے جب مدینہ میں اطمینان ہوا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عیال کو مدینہ بلا لیا۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ ،ام کلثوم اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے لانے کے لئے حضرت عبداللہ بن اریقط کو بھج دیا ماہ شوال میں نو سال کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی۔
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا علم و فضل کے لحاظ سے سب سے ممتاز ہیں۔حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں فتوی دیتی تھیں اکابر صحابہ کرام علیہ الرضوان آپ کے علم و فضل کے معترف تھے اور مسائل میں آپ سے استفسار کرتے تھے۔ آپ رٖضی اللہ عنہا سے 2210 حدیثیں مروی ہیں جن میں سے 174حدیثوں پر امام بخاری اور امام مسلم رحمہم اﷲ  نے اتفاق کیا۔امام بخاری علیہ الرحمہ نے منفرداً ان سے 54حدیثیں روایت کی ہیںاور امام مسلم علیہ الرحمہ نے 61 حدیثیں منفرد طور پر روایت کی ہیں ۔
تر مذی شریف کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام علیہ الرضوان کو جب بھی کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی اس مسئلے کو حل فرماتی تھیں ۔تفسیر حدیث ،اسرار شریعت ،خطابت ،ادب اور انساب میں آپ کو کمال حاصل تھا علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر دین کے چار حصے کئے جائیں تو ایک حصہ ہمیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملا ہے ۔
ازواج مطہرا ت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب ،آپ کا ورع تقوی علمہ و فقہ او راجتہادی بصیرت اتنی اعلی ہے کہ جس کے بیان کے لئے دفتر درکار ہیں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت فرماتے تھے۔
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ’’عائشہ کو عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو عام کھانوں پر۔‘‘(استیعاب)
حضرت ابن عباس اور حضرت عروہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا۔’’بالفرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اور فضائل نہ ہوں تو بھی ان کی فضیلت و بزرگی یہ کافی ہے کہ سورہ نور کی سترہ  آیتیں ان کی پاکدامنی ،عفت اور عظمت کے متعلق نازل ہوئیں جو قیامت تک پڑھی جائیں گی ۔‘‘ (اسد الغابہ ص 503،طبقات جلد 8ص53)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں کتب احادیث میں بے شمار فضائل موجود ہیں مگر ہم آپ رضی اللہ عنہا کی زبان ہی سے ملاحظہ کرتے ہیں۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود ہی تحدیث نعمت کے طور پر فرماتی ہیں کہ اللہ تعالی نے مجھے نو خوبیاں ایسی عطا فرمائیں جو کسی عورت کو نہیں ملیں۔
1
۔عقد سے پیشتر سے میری تصویر حضرت جبرائیل علیہ السلام سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی (یہ تصویر کسی انسان کی بنائی ہوئی نہ تھی)

2۔تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بجز میرے کسی اور کنواری عورت سے نکاح نہیں فر مایا ۔
3
۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ٔاول اور آپ کے پیارے صدیق کی صاحبزادی ہوں۔
4
۔ مجھ کو پاکیزہ کے گھر پاکیز ہ پیدا فرمایا ۔
5
۔ بوقت وصال سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا سر اقدس میری گود میں تھا ۔
6
۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں بعد ازوصال محوا سطراحت ہیں ۔
7
۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم میرے لحاف میںہوتے تو بھی وحی نازل ہو جاتی تھی ۔
8
۔مجھ سے اللہ تعالی نے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا ’’لھم مغفرہ رزق کریم ‘‘
9
۔ میری برات آسمان سے نازل ہوئی۔
بعض اہل تحقیق نے فرمایا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام پر تہمت رکھی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک شیر خوار بچے کی زبان سے آپ کی برات ظاہر فرمائی،حضرت مریم علیہاالسلام کو مطعون کیا گیا تو ان کے صاجزادے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان سے بحالت شیر خوارگی آپ کی برات کا اظہار فرمایا گیا لیکن جب منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو متہم کیا تو اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ عنہا کی برات کسی بچے یا کسی نبی کی زبان سے نہیں کرائی بلکہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کی برات خود فرمائی اور سورہ نور نازل فرما کر جناب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی پر مہر تصدیق ثبت فرمادی(طبری)

حدیث کے بہت بڑے امام ابن زھری فرماتے ہیں کہ اگر مردو ں اور امہات المومنین کا علم جمع کیا جائے تو سیدہ ساجدہ طیبہ طاہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علم ان میں سب  سے زیادہ ہوگا ۔(استیعاب ص76)
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں نے فقہ ،طب اور شاعری میں جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو عالمہ نہ پایا (استیعاب ص795)
جلیل القدر تابعی بزرگ حضرت ابو سلمہ اور عطاء بن ابن الرباح کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ فقیہ سب سے زیادہ بہتر اور لوگوں میں سب سے زیادہ صائب الرائے تھیں۔ سنت نبوی کا عالم تفقہ فی الدین کا ماہر ،آیات قرآن کے شان نزول اور علم فرائض کا جاننے والا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی اور کو نہیں دیکھا ۔(مستدرک ،استیعاب ص765،طبقات جلد 8ص5)
حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نو برس سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں، جب سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو ا تو آپ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف اٹھارہ برس کی تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اڑتالیس برس حیات رہیں اور 57ھ میں آپ کا وصال ہو ا وصال کے وقت آپ کی عمر 66سال تھی ۔آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو جنت البقیع میں رات کے وقت دفن کیا گیا۔ صحابی رسول حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی ۔