کچے رنگ:
سر پہ سکارف لپیٹے تیرہ سالہ طوبی نے سلیقے سے چائے کے ساتھ بسکٹ کی ٹرے خالہ زاہدہ کے سامنے رکھی۔
اس سے پہلے وہ انہیں مودب سلام کر گئی تھی۔
خالہ زاہدہ بولیں۔ ’’ما شاء اللہ ، بھئی آمنہ تمہاری بیٹی تو بہت ادب لحاظ والی بچی ہے دیکھ کے جی خوش ہو جاتا ہے۔ ورنہ آج کل کے بچے کہاں ہم بوڑھوں کو ملتے ہیں ..اور ما شاء اللہ اس پہ سلیقہ بھی اتنی سی عمر میں!‘‘
انہوں نے چائے کا گھونٹ بھرا۔ ’’ چائے بھی بہت اچھی ہے...
دل خوش کر دیا بچی نے میرا۔‘‘
آمنہ نے کہا۔ ’’جی خالہ اللہ کا بہت کرم ہے فرمانبردار اولاد دی اس نے..میں تو ہمیشہ یہی دعا کرتی ہوں کہ اللہ انہیں نیک فرمانبردار بنائے۔‘‘
زاہدہ خالہ نے فوراً کہا۔’’ آمین آمین!لیکن سچی بات کہوں تو تربیت بولتی ہے، اے لو میری شائستہ کی بیٹی اقرا اپنی طوبی سے سال بھر بڑی ہی ہوگی ، لیکن ذرا تمیز نہیں! مجال ہے جو مجھے ہی سلام کر لے..پچھلے ہفتے شائستہ کی طبیعت ٹھیک نہی ں تھی تو میں گئی..میں ہی بوڑھی ہڈیاں گھسیٹتی رہی اس بچی کو تو انڈہ ابالنا نہیں آتا . سارا سارا دن ہاتھ میں وہ کیا کہتے ہیں آئی پیڈ لیے بیٹھی رہتی ہے..اب شائستہ کچھ کہے تو سنتی نہیں ہے..‘‘
آمنہ نے جواب دیا۔ ’’بالکل خالہ اب اگر میں کہوں کہ میں طوبی کی تربیت کروں تو یہ بہت مشکل کام ہے ، اس کی تو عادتیں پختہ ہو گئی ہیں سمجھنے میں بہت ٹائم لے گی، کہیں نرمی تو کہیں سختی۔ تربیت تو مجھے اس کی کرنی ہے اس نے دو سالہ ماریہ کی طرف دیکھا..اس کو میں جس رنگ میں چاہے رنگ لوں..ہم ماں باپ جب تربیت کا وقت ہوتا ہے تو ابھی تو بچی ہے ابھی تو بچہ ہے کہہ کے ٹال دیتے ہیں اور جب وہ وقت گزر جاتا ہے اور بچوں کی عادات پختہ ہو جاتی ہیں تو افسوس کرتے رہ جاتے ہیں..کچی عمروں میں چڑھنے والے رنگ بڑے پختہ ہوتے ہیں!‘‘