انسان فطرتا نیک اور شریف النفس ہو تو ماحول ملتے ہی نیکی پر آمادہ ہو جاتا ہے ،گیارہ ماہ جو نیکیاں چل کر کیا کرتا تھا رمضان میں دوڑ دوڑ کر کرتا ہے تھکتا ہے فنا ہوتا ہے لیکن اسی سے جلا پاتا ہے واہ واہ روح کو وہ غذا ملتی ہے کہ لطف آجاتا ہے .......لیکن پھر کہیں سے ہماری زندگی میں ایک آدھا احسان فراموش آن دھمکتا ہے اور آن کی آن میں ہماری جان ہماری نیکیاں سمیٹ کر لے جاتا ہے۔احسان فراموش کہیں کا !!!!! پہلے تو خود "ہمارے کیے " ہوے احسان کو بھول جاتا ہے ،جب دوبارہ مصیبت پڑے تو پھر مونہہ اٹھائے چلا آتا ہے...
نہ مشورہ سنتا ہے نہ نصیحت کو مانتا ہے ،ضدی خودسر کہیں کا اور جب ہمیں ضرورت پڑے تب تو ہاتھ نہیں آتا ، بے مروت طوطا چشم نظریں ہی پھیر لیتا ہے۔اف! بس یہیں تک ستم رہتا تو کیا ہی بات تھی لیکن ستم بالائے ستم کہ ستمگر ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے ......آہ بس قصہ مختصر دراصل یہ اسی دریا کا پانی ہوتا ہے جس میں نیکی کرنے کے بعد اس نیکی کو ڈالنا تھا ،بھول جانا تھا کہ کسی پر احسان کیا تھا ۔اور یاد رکھنا تھا تو بس اپنی اوقات کہ نیکی کرنے، کسی کے کام آنے کی تمام تر توفیق اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی تھی ،یاد رکھنی تھی فقط اتنی سی بات کہ جس لمحے ہم اس تذبذب میں تھے کہ اس (احسان فراموش)پر مال ،وقت ،جذبات ،صلاحیت کو خرچ کریں یا نہیں اور ضمیر کی جس آواز پر، محبت کی جس دور کے ہلنے پر احسان کا معاملہ کر ڈالا وہ تنہا آزمائش کا لمحہ نہیں تھا اس کی کئی قسطیں ابھی باقی تھیں کئی مراحل جو اس سے زیادہ تلخ اس سے زیادہ سخت تھے ،کئی گھاٹیاں جو اس سے کہیں زیادہ گہری اور چوڑی تھیں ،کئی بیرئیر اس سے کہیں اونچے تھے جو ابھی آنے تھے ۔ہاں وہی ہم جو دن بھر میں دسیوں اہم کام اور ،ضرورت کی چیزیں رکھ رکھ کر بھول جاتے ہیں ،یہ احسان نہ جانے یادداشت کے کس نکڑ پر ٹکا بیٹھا ہوتا ہے کہ، ہر کسی کو دیکھ کر جست لگا کر سامنے آجاتا ہے کہ چلو اسے تو بتادو کہ فلاں کے ساتھ تم نے کیا "فیاضی اور بڑے پن" کا مظاہرہ کیا ۔ارے نہیں نہیں دکھاوا کیسا بھئی ترغیب کے لیے بس ..ہاں ہاں عاجزی اور انکساری کے ساتھ .....نہیں ؟ اچھا کوئی بات نہیں ....کون سا بھول جانا ہے ،اور بس پھر وہ لمحہ یا بار بار ایسی صورتحال سامنے آ کھڑی ہوتی ہے کہ گویا غیر مہذب بستی میں شادی کی تقریب میں اعلان ہو گیا ہو کہ "کھانا کھل گیا ہے " اور پھر جسطرح لوگ لپک جھپک کر لپا لپ، ہوکے اور ہوس میں تمام کھانا غارت کر ڈالتے ہیں ،اور پتہ چلتا ہے کہ تمام انتظام کی ایسی تیسی ہو کر رہ گئی ہے "کھانا "کم پڑ گیا ہے .وہی کچھ ہمارے نفس کے غیر مہذب مہمان ،یعنی وقتی طور پر آیا ہوا غصہ ،جھلاہٹ ،یاسیت ،جہالت ،کچکچاھٹ ،گھبراہٹ ،غراہٹ ،اکساہٹ سب مل کر نیکیوں سے سجے دسترخوان پر لوٹ مچا دیتے ہیں . اس افراتفری میں یاد کسے رہ جاتا ہے کہ اس (احسان فراموش) کی غیبت اور اس پر فلاں فلاں وقت میں کیے گئے احسانات اب ہم ہر کسی سے اور بار بار کسی سبق کی مانند دہرائے چلے جارہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آہ ! کاش کہ ہم یہ سبق یاد رکھ لیا کریں کہ اللہ تعالیٰ احسان جتانے والوں کو کس قدر سخت ناپسند فرماتا ہے اور ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا روز حشر. کاش اتنا یاد رکھ لیں کہ ظلم ہم پر ہوا بھی اور ہم نے اس پر زبان کھولی بھی احتجاج کیا بھی تو آخر کتنی بار اور کس کس سے اسکا اظہار کرنے کی ہمیں اجازت ہے؟ کیا اس اللہ کو جسے ہم بہت بہت پیار کرتے ہیں اس سے ملنا چاہتے ہیں اس کے دیدار کے لیے قربانیاں دے دے کر مرے جا رہے ہیں یہ سب پسند ہے؟ جب ہم جانتے ہیں کہ ہم نیکی کو ہرگز پا نہیں سکتے جب تک کہ اپنی عزیز ترین چیزاللہ کی راہ میں صدقه نہ کر دیں ،تب ہماری سوچ صدقہ کے نام پر بکرے کی کلیجی اسکا خون،یا بہت ہواتو کپڑے ،کھانے ،پیسے ،خیرات کے ہی گرد کیوں چکراتی رہ جاتی ہے ؟ ہم اپنے کلیجے کی آگ اور کھولتے ہوئے خون کا صدقه کیوں نہیں کر پاتے ؟ ہم کتنے مستعد ہو جاتے ہیں ناں !جب ہمیں خبروں میں پتہ لگتا ہے کہ فلاں شخص خطرناک ہے تو فوری دروازے کھڑکیاں بند کر کے ڈبل چیک کرتے ہیں کار کو لاک کر کے پھر بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کوئی ہاتھ نہ ہو جائے ،یہی کام اپنے رویے میں بھی کیوں نہیں کر لیتے کہ سب سے پہلے علم کے تالے سے اپنی جہالت کو لاک کر دیں ،نفس جب جب بھی دستک دے، دماغ کی بتی روشن کر کے اس بول پڑنے کی خواہش کو ڈبل چیک کر لیں کہ آیا یہ سودمند ہے یا ایسا قرض جسکا سود نسلیں بھی چکا نہ سکیں گی۔کمال ہے ناں کہ ہمارا فون کوئی نہ کھول لے تو اب پاسورڈ پر بھی صبر نہیں آتا بس اپنا ہی فنگر پرنٹ ہوگا تو کھلے گا لیکن مونہہ کھولنے سے قبل کوئی رکاوٹ نہیں حیا نہیں حجاب نہیں خوف نہیں کیوں؟ کیونکہ یاد ہی نہیں کہ یہ کوئی دور پار کے کبھی مل جانے والے لوگ نہیں بلکہ ،ہمارے ارد گرد مسلسل رہنے والے ،ہمارے بھائی ،بہن ، سسرالی،پڑوسی ،دوست ،ملازم ،ازواج اولاد حتی کہ والدین ! جی ہاں بالکل والدین کا احسان اور قرض تو اتارا ہی نہیں جا سکتا ....لیکن اپنا کیا ہوا احسان ہم بھولتے کب ہیں بھلا ؟ جہاں کسی نے بٹن دبایا ہم سارے ریکارڈز تمام فائلیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔تو یادہانی کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جہاں نیکیوں میں سبقت کی دوڑ لگی ہوئی ہے وہیں ان کی حفاظت کا بھی بندوبست بہت زیادہ ضروری ہے ۔نئے پل اگر تعمیر کرنا نہایت ضروری ہیں تو پرانے ٹوٹے پھوٹے کمزور سے پلوں کی تعمیر اس سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے کیونکہ وہاں بستیاں آباد ہو چکی ہوتی ہیں ،پرانے پل کے اچانک منہدم ہونے پر انکی جان کو جتنا خطرہ لاحق ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ خطرہ ،ان "خطرناک" لوگوں سے ہمارے ایمان کودرپیش ہے ۔تو کیوں نہ یہ عہد کر لیں ،ایک ٹوٹی پھوٹی سی کوشش ہی کرلیں کہ کسی بھی معاملے میں احسان کرنا تو ہے لیکن جتانا ہرگز نہیں۔ انشاء اللہ!
"اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)