حرفِ اول

14اگست 1947ء کو کروڑوں مسلمانوں کے خوابوں کی تعبیر بن کرپاکستان وجود میں آیا، جس کے لئے لاکھوں مردو زن شہید ہوئے ، جس کو پانے کے لئے لاکھوں مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر نکلے مگر وہ منزل تک نہ پہنچ سکے ،غلامی کی رات گزر گئی مگر اندھیرا باقی رہا۔ صبح کی روشنی دیکھنے کے منتظر، کروڑوں پاکستانی عوام آج تک اس حقیقی پاکستان کو دیکھنے کا انتظار کررہے ہیں۔
اہلِ پاکستان! غورکامقام ہے ۔آج ۶۹سال گزرگئے آزادی حاصل کیے مگرہم اپنی منزل سے ہنوزدور ہیں۔بدعنوانی ،اقرباپروری،سستی، ضیاعِ وقت ،بددیانتی اوربے ایمانی جیسے امراض ہماری سرشت بن چکے ہیں۔ آج بھی یہاں ہر مسئلہ فائل کی نذر ہوتا ہے۔یہاں بجلی کے ہر تار پر کنڈے ڈالے جاتے ہیں ، سرکاری...

کھمبوں سے بلب اتارے جاتے ہیں، ریل گاڑیوں کی لیٹرینوں سے لوٹے چرائے جاتے ہیں، مسجدوں کو جوتوں اور چپلوں کے لئے بہترین شکار گاہ تصو ر کیا جاتا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن تلاوت کے بعد اخلاق باختہ نغمے اور حیا سوز پروگرام نشر کرتے ہیں۔ بسوں ، ویگنوں، ہوٹلوں اور دکانوں میں تلاوت کلام اللہ کے بعد قوالیوں اور گانوں کا دور چلتا ہے ، اذان کے بعد بازار کھلے رہتے ہیں، کاروبار زندگی رواں دواں رہتا ہے ، ہاں۔۔۔پچھلی صدیوں سے تعلق رکھنے والے چند مسکین مسجد کا رخ کرلیتے ہیں، نماز کے دوران گانوں کی بلند آواز سے ان کو گرانی تو ہوتی ہے لیکن ان کو دم مارنے کا حق نہیں ،
یہاں ثقافتی شو منعقد ہوتے ہیں، غیر ملکی وفود شرکت کرتے ہیں، امریکی، روسی، برطانوی اور جاپانی سفیروں کے سامنے پاکستان کی دوشیزائیں رقص کرتی ہیں۔۔۔اہل پاکستان اپنی حسن نوازی کی داد پاتے ہیں ، یہ کتنا بڑا انعام ہے۔۔۔؟ باہر والوں کو اپنی ثقافت سے روشناس کرانے کے لئے ہمارے وزیروں، مشیروں، سفیروں اور امیروں کے جھرمٹ میں ثقافتی طائفے جوق در جوق باہر جاتے ہیں۔ دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ کیسا پاکستان ہے اور یہ کہ اہل پاکستان کتنے کھلے ظرف کے حامل ہیں۔۔۔؟ غیر ملکی بڑے متاثر ہوتے ہیں جھٹ پٹ پاکستان دیکھنے نکل کھڑے ہوتے ہیں، یہاں آکر انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہاں شاہ لطیف کا میلہ بھی ہے اور شاہ دولہ کا عرس بھی ، نائٹ کلب بھی ہیں اور جمنازیم بھی، شراب خانے بھی ہیں اور کوٹھے بھی، گلوکاری بھی عروج پر ہے اور فلمی صنعت بھی، حسن کے مقابلے بھی ہیں اور خواتین کی ہاکی اور تیراکی بھی۔
پاکستان کے اعلیٰ افسران کے ٹھا ٹھ سے برطانوی وزیر اور امریکی صدر بھی شرما جائیں، عام افسران سے کئی سو گنا زیادہ تنخواہیں ان کی نذر، الاؤنسز ان کے سوا، اوپر کی آمدنی اس کے علاوہ ، اربوں کا غبن اس سے بالا، بس وارے نیارے ہیں’’پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ‘‘ایکڑوں کی جاگیریں، ہزاروں گز کی سرکاری رہائش گاہیں، وال ٹو وال قالین، بیسیوں خدمت گار، کئی کئی باڈی گارڈ، ڈائیووں،مرسڈیزوں اور لینڈ کروزر وں کا بیڑا، اندرون و بیرون ملک مفت ہوائی سفر، تفریح اور علاج کے لئے سوئٹزر لینڈ ، فرانس، برطانیہ اور امریکا کے دورے ، جلسوں کی صدارت، جلوسوں کی قیادت، فنکشنوں میں جلوہ نمائی۔
کیا پاکستان اس لیے بنایاگیاتھاکہ چند لوگ عیش کریں اورپوری قوم ان کے قدموں تلے دم توڑتی رہے۔یہاں بے حیائی سرچڑھ کر بولے اوراخلاق وشرم جیسے تصورات عنقاہوجائیں؟
ہرگز نہیں۔ یہ ملک اسلام کے عادلانہ نظام کی بالادستی کے لیے بناتھا۔ اگر اس مقصد کوحاصل نہ کیاگیا تو خود ملک کی بقا خطرے میں رہے گی۔ یوم آزادی کے موقع پر ہمیں عہد کرناہوگا کہ ہم پاکستان میں ایک اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے خود کووقف کریں گے۔ ہمیں یہ طے کرناہوگاکہ ہم اعلیٰ اخلاقی صفات سے آراستہ ایک نسل تیا رکریں گے جو مستقبل کے پاکستان کودنیا کے لیے قابلِ رشک بنادے گی۔ تب ہی ہم ان شہیدوں کے خون سے انصاف کرسکیں گے جو پاکستان کی خاطر بے گوروکفن بے نام ونشان ہوگئے۔