آزادی کسے کہتے ہیں؟ یہ کوئی ان سے پوچھے جو اس نعمت ِ بے کراں کے حصول میں مر مٹے۔ اس دن وہ فوٹوز نظر سے گزریں جس میں ایک امریکی فوٹو گرافر نے 1947ء کے مناظر عکس بند کیے ہیں۔ آہ!دل پارہ پارہ ہو گیا۔ ایک الگ وطن کی قیمت کیسے کیسے نہ چکائی گئی۔کسی سڑک پر جا بجا بکھری ہوئی بے گور و کفن لاشیں ہیں۔ ایک لاش کو بھیڑیا بڑے اطمینان کےساتھ بھنبھوڑنے میں مصروف ہے۔ دریا میں پورے خاندان کی پھولی ہوئی میتیں تیر رہی ہیں۔ٹوٹی ہوئی دیوار پر گدھوں کی لمبی قطار ہے جبکہ نیچے پوری گلی میں انسانی ڈھانچے ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔کسی جگہ سیاہ رنگ کا دھواں دیتا ہوا ڈھیر سا ہے جس میں سے ایک آدھ پیر یا بازو بھی نظر آجاتا ہے۔ کیمپ کے فرش پر ....
بچے عورتیں اور بزرگ سوکھے لبوں اور پھٹی پھٹی آنکھیں لیے بیٹھے ہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں بیل گاڑیوں پر لٹے پٹے بے سروسامان سے قافلے رواں دواں ہیں۔
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے جب میں نے یہ تصاویر دیکھیں۔ قربانی کا اصل مفہوم کیا ہوتا ہے؟ ہمیں اس کی الف ب بھی نہیں معلوم۔ بڑے عظیم لوگ تھے وہ جو ہمیں اپنا خون دے کر آزادی کی قیمت سمجھا گئے۔
پاکستان کی اہمیت کو سمجھیں۔ اس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا لہو ہے۔ پاکستان سے محبت کریں۔ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی خامیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ وطن بیٹھے بٹھائے نہیں ملا۔ ان گنت لوگوں نے بڑی بھاری قیمت ادا کی.... تب جا کر ہم آج اپنے اپنے گھروں میں بے خوف و خطر بیٹھے ہیں... پوری آزادی کے ساتھ رہتے ہیں... اس کی لہلہاتی فصلیں کھاتے ہیں .... اس کے دریاؤں کا میٹھا پانی پیتے ہیں... اس کی پرسکون ہواؤں میں سانس لیتے ہیں۔
کتنی آسانی سے ہم اپنے وطن کو اپنے وطن کی چیزوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں ۔ کتنی آسانی سے ہم دو قومی نظریے کو بھلا دیتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں پرکیا بیت گئی تھی۔ کاش ہم اپنے وطن کی قدر کرنا آجائے۔
۱۴ اگست کی نمازوں میں جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں ان لاکھوں گمنام شہیدوں اور ان کی بے گوروکفن لاشوں کو بھی یاد کریں جن کو آزادی کی خواہش میں پیچھے ہٹ جانے کی بجائے قربان ہو جانا زیادہ اچھا لگا!
اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے پاک وطن کو ہمیشہ خوشحال اور سرسبز و شاداب رکھے۔ آمین!
پاکستان زندہ باد! پاکستان پائندہ باد!
{rsform-7}