بچوں کی تربیت: ہمارے بچے ہمارا مستقبل

بقول روسو انسان کمزور پیدا ہوتا ہے اسے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بے سروسامان ہوتا ہے، اسے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ناسمجھ ہوتا ہے ، اسے عقل آموزی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو چیزیں اس کے پاس پیدائش کے وقت نہیں ہوتیں وہ اسے جسمانی اور ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ تعلیم سے ملتی ہیں اور تعلیم کے لیے بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی آغوش ہے۔ وہ زندگی کا پہلا سبق وہیں سیکھتا ہے۔ سائنس کی جدید تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بچے کی ذہنی، اخلاقی اور جسمانی تربیت کا اصل مقام اسکول اور کالج نہیں بلکہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے۔ چنانچہ گھر کے ماحول کا بچے کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ بچہ بہت ساری باتیں اپنے والدین اور گھر کے دیگر افراد سے سیکھتا ہے، ان کے طور طریقوں کی نقل کی کوشش کرتا ہے جو بعد میں اس کی شخصیت کاجُز بن جاتے ہیں۔ گھر کے افراد کے طرزِ عمل سے وہ محبت، ہمدردی کے جذبات یا پھر خود غرضی، بے ایمانی اور نفرت کے جذبات سے روشناس ہوتا ہے۔ اگر والدین اور گھر کے دیگر افراد مہذب، تعلیم یافتہ، نیک چلن اور خوش اخلاق ہوں تو کہا جاسکتا ہے کہ گھریلو حالات اچھے ہیں پھر بچے وہاں یقینا اچھی باتیں سیکھیں گے اور اگر والدین مہذب، تعلیم یافتہ، نیک چلن اور خوش اخلاق نہ ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ گھریلو حالات اچھے نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں بچے وہاں بری باتیں سیکھیں گے۔ اس طرح بچے کے کردار کی تشکیل کی بنیاد گھر پر ہی پڑ جاتی ہے اور سیرت کی تشکیل تعلیم کا سب سے اہم مقصد ہے۔

آج اکثر والدین کو یہ شکایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے بچے جھوٹ بولتے ہیں، کہنا نہیں مانتے، بڑوں کی عزّت نہیں کرتے، تعلیم میں دلچسپی نہیںلیتے، فحش اور غیر معیاری فلمیں دیکھتے ہیں اور بے ہودہ ڈائیلاگ بولتے ہیں۔ گویا ان کی اولاد ان کے لیے عذابِ جان یا زحمت بنی ہوئی ہے۔ وہ اصلاح کا جو بھی طریقہ اختیار کرتے ہیں، اس کا نتیجہ الٹا ہی نکلتا ہے۔ دوسری طرف اولاد کی شکایتیں بھی کم قابلِ توجہ نہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اوراولاد کی اس کشمکش پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ وہ بنیادی اصول کیا ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے ان مشکلات کو دور کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین نفسیات نے اپنی طویل تحقیقات کے بعد یہ اصول بھی واضح کردیا ہے کہ ایک بچے کی اچھی بری قسمت پہلے چھ سال کی عمر میں طے ہوجاتی ہے۔ یہ قسمت آسمان کی کوئی غیبی طاقت نہیں بناتی بلکہ خود والدین اس کے معمار ہوتے ہیں۔

اولاد کا اچھا مستقبل سب کی آرزو ہے۔ کوئی بھی والدین ایسے نہیں ہوں گے جو اس الزام کو تسلیم کرلیں کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہیں، بچوں کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ جب بھی ان کے بچے کے ساتھ کوئی چھوٹا یا بڑا ناانصافی کرتا ہے تو وہ اس وقت آمادہ ¿ انتقام ہوجاتے ہیں لیکن وہ خود بڑی بڑی ناانصافیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ ناانصافیاں بچے کی شخصیت کا خون کرتی ہیں اور شخصیت کا خون درحقیقت زندگی کا خون کر دینے سے بھی زیادہ خوف ناک جرم ہے۔

روسو کے مطابق ایک باپ جو اپنے بچوں کو صرف کھانا اور کپڑا مہیا کردیتا ہے، وہ اپنی ذمے داری کا ایک تہائی حصہ پورا کرتا ہے۔ سماج کا اس پر حق ہے کہ وہ ایسے خاندان پیدا کرے جو سماج کے لیے فائدہ مند ہوں اور ریاست کا اس پر حق ہے کہ وہ اچھے شہری پیدا کرے۔ ہر وہ شخص جس پر یہ تین حقوق ہیں اور جوان کو ادا نہیں کرتا وہ ایک مجرم ہے۔ جو باپ اپنے فرائض ادا نہ کرے اسے باپ بننے کا کوئی حق نہیں۔

بچہ خواہ ایک ماہ کا ہی کیوں نہ ہو، اسے گوشت کا ایک بے شعورلوتھڑا نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ذہن نشیں کرلینا چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول کی ایک ایک حرکت اپنے دل و دماغ میں جذب کررہا ہے۔ اس لیے پہلی اور بنیادی ضرورت یہ ہے کہ والدین بعض نار وا اعمال کو اپنے بچوں کے سامنے یہ سمجھ کر روا قرار دینے کی جھوٹی تسلی حاصل نہ کریں کہ بچوں میں سوجھ بوجھ نہیں۔ بے شک بچوں میں سوجھ بوجھ نہیں ہوتی لیکن ان کے تحت شعور میں ہماری ایک ایک حرکت قبول کرنے کا جذبہ برابر موجود ہوتا ہے۔ کوئی جھوٹ، کوئی ناراضگی، کوئی گھڑکی اور کوئی بُرا وتیرہ ایسا نہیں جو بچے کے ننھے سے دماغ میں اپنے امٹ نقوش نہ چھوڑ جائے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنی اولاد کے سامنے حتی الامکان اپنے اخلاق و عادات کا اچھے سے اچھا نمونہ پیش کریں۔

بچوں کی شخصیت کا احترام بھی ضروری ہے۔ لیکن بہت کم لوگ اپنے بچوں کی شخصیت کا احترام کرتے ہیں۔ جاہل تو جاہل اچھے اچھے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس وصف سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ تقریباً ہر روز بچوں کی ہتک کرتے ہیں، انھیں گالیاں دیتے ہیں، ڈانٹتے ڈپٹتے ہیں اور جھڑکتے رہتے ہیں، بات بات پر ٹوکتے رہتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات میں عیب نکالتے رہتے ہیں۔ انھیں نکمّا، نالائق، کام چور، بے وقوف اور گدھا کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ لعن طعن بچے کی شخصیت پر نہایت بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ اس قسم کے وتیرے سے بعض اوقات بچے کے دل میں والدین کے خلاف ایسی گہری نفرت پیدا ہوجاتی ہے کہ آخر عمر تک دور نہیں ہوسکتی۔ گویا ہم اپنے بچوں کی توہین کرکے آئندہ عمر میں اپنی توہین کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔