میری مثالی پھپھو

’’پھپھو بھی نوڈلز کی طرح ہوتی ہیں۔ دو منٹ میں الجھنے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔‘‘ نجانے کس دانشور کا یہ قول ہے ؟ یقینا دانشور کا واسطہ ایسی پھپھو سے ہوا ہوگا ۔ لیکن ہماری پھپھو بالکل بھی ایسی نہیں ۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن والدین کی اکلوتی بیٹی ۔ پھپھو کی شادی کو ماشاء اللہ 50 سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے ۔سسرال میں سب سے بڑی بہو ہیں ۔خاندان کی کوئی بھی تقریب ہو خوشی کا موقع ہو یا غم کا پھپھو کے بغیر نا مکمل ہے ۔ خاندان کی ساری خواتین چاہے وہ عمر میں پھپھو سے بڑی ہوں یا چھوٹی ہر معاملہ میں پھپھو سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔

 

کردار ایسا روشن کہ کئی بار پھپھو سے پوچھا کہ ہم آپ جیسے کیسے بن سکتے ہیں؟ جواب میں ہمیشہ ایک مشفقانہ مسکراہٹ ہی ملی ۔ ہمہ وقت کام میں لگی رہتیں ۔ اللہ نے انھیں پانچ اولادوں سے نوازا۔ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ۔ ان سب کی ایسی تعلیم و تربیت کی  کہ ہر بچہ ایک سے بڑھ کر ایک ۔ بیٹیاں ہیں کہ انتہائی سگھڑ ،کم بولنے والی ،برداشت کرنے والی اور تحمل تو گویا پھپھو نے ان کی گھٹی میں ہی ڈال دیا ۔ کیسی ہی ناگوار بات ہو ،مجال ہے کہ جو کوئی ایک بھی بیٹی بول دے، یا آگے سے جواب دے دے ،اسی لیے تو پھپھو کی تینوں بیٹیاں اپنی اپنی سسرال میں ہاتھوں ہاتھ ہیں۔

مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں نے حیرت سے پھپھو سے پوچھا تھا کہ باجیاں اپنے سسرال والوں کی زیاد تیوں پر کچھ کٰہتیں کیوں نہیں ؟ پھپھو نے جو جواب دیا تھا شاید کم عمری کی وجہ سے مجھے اس وقت تو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوا تھا مگر اب تو دل چاہتا ہے کہ اس جملے کو لکھواکرگھر کی دیوار پر آویزاں کرلوں ۔ پھپھو نے بڑی محبت سے مجھے دیکھا اور بولیں۔’’عورت کے پاس دو ہی ہتھیار ہیں ! ایک صبر ، اور دوسرا خاموشی ان ہتھیاروں سے وہ بڑے بڑے رخ موڑ سکتی ہے۔‘‘

جہاں تک بیٹوں کی تربیت کی بات ہے ،ماشاء اللہ پھپھو کے دونوں بیٹے طبیب ( ڈاکٹر ) ہیں ، طبیب ہونا تو شاید حیرانی کی بات نہیں ،مگر ایسے سعادت مند ،فرمانبردار ،ادب اور لحاظ والے بیٹے ہونا یقیناً حیرانی کی بات ہے ۔ پھر صرف یہی نہیں کہ والدین کے سعادتمند ہوں خاندان کا کوئی بھی بزرگ ہو ،نزدیک کا یا دور کا ،پھپھو کے بیٹے ہر ایک کے سامنے یوں سر جھکا کر کھڑے ہوتے ہیں کہ آج کوئی اپنے والدین کے آگے بھی نہ کھڑا ہو ، ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملنا ، اپنے اپنے سسرال میں ہر دلعزیز ہونا ، بیوی کے والدین کا بھی ایسے ادب کرنا گویا اپنے والدین کا ،آس پڑوس کے لوگوں کی خبر گیری کرنا چھوٹوں سے نرمی اور شفقت سے پیش آنا یہ وہ تربیت ہے جو پھپھو نے اپنی اولاد کی کرکے اپنے لیے انھیں صدقہ ٔ جاریہ بنا لیا ہے ۔ پھپھو کے مزاج میں بہت تحمل ہے ۔وہ بڑی سی بڑی بات سن کر بھی خاموش رہتی ہیں۔

پھپھو کو ہمیشہ اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ برسوں سے ماؤں نے اولاد کی تربیت کرنی چھوڑ دی ہے ۔ بچے جو چاہیں کریں ،جہاں مرضی جائیں،بڑوں کو جیسا الٹا جواب دیں بلکہ جس سے چاہیں بد تمیزی کریں ماں کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ،کوئی تنبیہہ نہیں۔  بچے ایسے پروان چڑھ رہے ہیں  کہ نہ دین کی کوئی خبر نہ د نیا کی ،نہ بچپن سے نماز کی عادت ڈالی جاتی ہے، نہ ہی مسنون دعائیں سکھائی جاتی ہیں اور نہ د ین کے ضروری مسائل بتائے جاتے ہیں ۔ اب میں سوچتی ہوں کہ پھپھو نے اپنی اولاد پر کتنی محنت کی ہوگی ۔ان کا ہر بچہ چھوٹی عمر سے نماز ،روزے کا پابند ہے ہر موقع پر سنت کے مطابق دعاؤں کا پڑھنے والا ،تلا وت کا عادی اور رزق حلال کا اہتمام کرنے والا ہے ۔ یہ سب پھپھو کی دن رات کی اولاد پر کڑی نظر رکھنے کا نتیجہ ہے ۔

پھر بات یہیں آکر نہیں رک گئی ، پھپھو نے حتی الامکان اپنی اولاد کی اولاد پر بھی اتنی ہی توجہ رکھی ۔ان کے بیٹے دنیا کے جس حصے میں بھی ہوں ،اپنی اور اپنی اولاد کی نمازوں کو صحیح وقت پر ادا کرنے کا خصوصی اہتمام رکھتے ہیں ۔ اگر پھپھو کی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو خیال آتا ہے کہ اتنی مصروفیات میں انھوں اپنے معمولات پورے کرنے اور اپنی نماز و تسبیح کے لیے کیسے وقت نکالا ہوگا ؟ اصل بات یہی ہے کہ پھپھو وقت کی بہت پابند ہیں ، ہر کام وقت پر کرنا اور دل لگا کر کرنا پھپھو کا ایک خاص وصف ہے ۔اسی لیے اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کے وقت میں برکت بھی دی ہے۔ آ ئے دن عزیز و اقارب ،دوست احباب کی دعوت کرنا نت نئی ترکیبوں کا آزمانا اور اتنے لذیذ پکوان بنانا کہ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں مگر فرمائشیں ختم نہ ہوں ۔

ہر ایک کو کھلا کر بہت خوش ہوتیں ۔ آئے دن رشتہ داروں کی دعوتیں کرتیں اور اپنے مہمانوں کے لیے یہ شعر اکثر پڑھا کرتیں ۔

؎کیوں نہ میں قرباں جاؤں اپنے اس مہمان پر

اپنے نصیب کا کھا رہا ہے میرے دسترخواں پر!

 پھپھو امور خانہ داری کے گر بھی جانتی ہیں اور سلیقہ مند بھی ہیں ،ہر قسم کے اچار،چٹنیاں اور مربے وغیرہ گھر میں ہی بناتی ہیں ۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی پهپو کا معمول تھا کہ اپنے آس پڑوس ، عزیز واقارب،میکہ وسسرال اور دوست احباب کی خبر گیری کرتیں ۔جہاں ضرورت مند کی حاجت دیکھتیں۔  پورے رمضان المبارک اور عیدالفطر تک کے لیے راشن کا انتظام کردیتیں۔  یقیناً یہی وجہ تھی کہ پهپو کے گھر اور ان کے شوہر کے کاروبار میں بہت برکت تهی۔  ماشاءاللہ۔  عید الفطر کے موقع پر بیٹیوں کے لیے عیدی کا جس طرح انتظام کرتیں بہوؤں کے لیے بھی ویسے ہی عیدی بھجوایا کرتیں۔

 کہتے ہیں کہ ہر انسان میں خوبیاں اور خامیاں دونوں ہوتی ہیں ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پھپھو لوگوں کے ساتھ ان کے مزاج کے مطابق پیش آنے والی ہیں ۔ پھپھو قہقہہ نہیں لگاتیں ، مزاحیہ لوگوں کے ساتھ مزاحیہ ہیں ۔سنجیدہ لوگوں کے ساتھ سنجیدہ۔بچوں کے ساتھ بچوں جیسی اور بوڑھوں اور غمگین لوگون کے غموں ،دکھوں میں تسلی دینے والی ہیں۔ کیا کیا لکھا جائے ؟ پھپھو کی زند گی کا ہر پہلو ہی عمل سکھانے والا اور اجالے پھیلانے والا ہے۔ اللہ سبحان و تعالی سے دعا ہے کہ پھپھو کی زندگی اور صحت میں برکت ہو اور ہمارے سر پر پھپھو کا سایہ تا حیات قائم رکھے۔