حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم خیال اور غمگسار تھیں بلکہ ہر موقع پر اور ہر مصیبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کیلئے تیار رہتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
’’ میں جب کفار سے کوئی بات سنتا تھا اور وہ مجھ کو ناگوار معلوم ہوتی تھی تو میں خدیجہ سے کہتا، وہ اس طرح میری ڈھارس بندھاتی تھیں کہ میرے دل کو تسکین ہو جاتی تھی اور کوئی ایسا رنج ایسا نہ تھا جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی باتوں سے آسان اور ہلکا نہ ہوجاتا تھا۔‘‘
عفیف کندی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں زمانہ جاہلیت میں کچھ اشیاء خریدنے کیلئے مکہ آیا اور عباس بن عبدالمطّلب کے پاس ٹہرا۔ دوسرے دن جب صبح کے وقت عباس کے ہمراہ بازار کی طرف چلا۔ جب کعبہ کے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا ایک نوجوان شخص آیا، اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا پھر قبلہ کی طرف منہ کرے کھڑا ہو گیا، تھوڑی دیر بعد ایک نوخیز لڑکا آیا جو پہلے جوان کی ایک جانب کھڑا ہوگیا، زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ایک عورت آئی اور وہ بھی ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ ان تینوں نے نماز پڑھی اور چلے گئے۔میں نے عباس سے کہا ’’ عباس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں انقلاب آنے والا ہے؟‘‘ عباس نے کہا : ’’ ہاں تم جانتے ہو یہ تینوں کون ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ نہیں‘‘۔ عباس نے کہا: ’’ یہ جوان اور لڑکا دونوں میرے بھتیجے تھے، جوان عبداللہ بن مطّلب کا بیٹا محمّد اور لڑکا ابو طالب بن عبد المطّلب کا بیٹا علی تھا۔ عورت جس نے دونوں کے پیچھے نماز پڑھی، میرے بھتیجے محمّد کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میرے بھتیجے کا دعویٰ ہے کہ اس کا دین الہامی ہے اور وہ ہر کام خدا کے حکم سے کرتا ہے لیکن ابھی تک ان تینوں کے سوا اس دین کا کوئی پیرو میرے علم میں نہیں ہے۔‘‘ عباس کی یہ باتیں سن کر میرے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ اے کاش چوتھا میں ہوتا۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کیسے نامساعد حالات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہی ہمدردی، دلسوزی اور جاں نثاری تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ جب تک وہ زندہ رہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دوسرا نکاح نہ فرمایا۔ حضرت خدیجہ جہاں اولاد کی پرورش نہایت حسن و خوبی سے کر رہی تھیں وہاں امور خانہ داری بھی نہایت سلیقے سے نبھاتی تھیں اور باوجود تموّل و ثروت کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت خود کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا: ’’ خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں آپ ان کو اللہ کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ کی عقیدت و محبت کی یہ کیفیت تھی کہ بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا انہوں نے ہمیشہ اسکی پرزور تائید و تصدیق کی۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکی بیحد تعریف و تحسین فرمایا کرتے تھے۔ سنہ ۷ بعد بعثت میں مشرکین قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطّلب کو شِعب ابی طالب میں محصور کیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اس ابتلا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ وہ پورے تین برس تک اس محصوری کے روح فرسا آلام اور مصائب بڑے حوصلے اور صبر کے ساتھ جھیلتی رہیں۔
سنہ ۱۰ بعد بعثت میں یہ ظالمانہ محاصرہ ختم ہوا لیکن اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زیادہ عرصہ حیات نہ رہیں۔ رمضان المبارک میں (یا اس سے کچھ پہلے) ان کی طبیعت ناساز ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج معالجہ اور تسکین و تشفّی میں کوئی وقیقہ اٹھا نہ رکھا لیکن موت کا کوئی علاج نہیں۔ ۱۱ رمضان سنہ ۱۰ نبوّی کو انہوں نے پیک اجل کو لبّیک کہا اور مکہ کے قبرستان میں حجون میں دفن ہوئیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریباََ ۶۵ برس کی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کا بے پناہ صدمہ ہوا اور آپ اکثر ملول رہنے لگے تا آنکہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح ہو گیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے اتنی محبت تھی کہ جب قربانی کرتے تو پہلے حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو گوشت بھیجتے اور بعد میں کسی اور کو دیتے۔ حضرت خدیجہ کا کوئی رشتہ دار جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تو آپ اس کی بے حد خاطر مدارات فرمایا کرتے۔رحلت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد مدّت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک گھر سے تشریف نہ لیجاتے جب تک حضرت خدیجہ کی اچھی طرح تعریف نہ کر لیتے۔ اس طرح جب گھر تشریف لاتے ان کا ذکر کرکے بہت کچھ تعریف فرماتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب معمول حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تعریف کرنی شروع کی مجھے رشک آیا میں نے کہا: ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ ایک بڑھیا بیوہ عورت تھیں اللہ نے ان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بہتر بیوی عطا کی۔‘‘ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا:
’’ اللہ کی قسم مجھے خدیجہ سے اچھی بیوی نہیں ملی، وہ ایمان لائیں جب سب لوگ کافر تھے، اس نے مری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھٹلایا، اس نے اپنا زرومال مجھ پر قربان کر دیا، جب دوسروں نے مجھے محروم رکھا، اور اللہ نے مجھے اس کے بطن سے اولاد دی۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ڈر گئی اور اس روز سے عہد کر لیا کہ آئندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کبھی خدیجہ الکبریٰ کو ایسا ویسا نہیں کہوں گی۔‘‘
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھی اولادیں دین۔ سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے جو کمسنی میں انتقال کر گئے۔ پھر زینب رضی اللہ عنہا، ان کے بعد عبداللہ، وہ بھی صغر سنی میں فوت ہو گئے ( ان کا لقب طیّب اور طاہر تھا)۔ پھر رقیّہ، پھر امّ کلثوم پھر فاطمہ الزّھرا رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔
نجومِ ہدایت: جاں نثار و غمگسار بیوی
- تفصیلات
- Written by: ایڈیٹر