حرفِ اول

ہلالِ عید پھر افق پر نمودارہوا۔دلوں کی کلیاں کھل اٹھیں،مبارک سلامت کاشورہوا۔لبوں پر دعاآگئی:
اللہم اہلہ علینا بالیمن والایمان والسلامۃ والاسلام ،ربی وربک اللہ
اے اللہ اسے چاند کوہم پر برکت وایما ن اورسلامتی واسلام کے ساتھ طلوع فرما۔اے چاندمیرااورتیرارب صرف اللہ ہے۔
یہ دعامسنون ہے۔یہ دعابتاتی ہے کہ عیدکی خوشیاں اصل خوشیاں تبھی بن سکتی ہیں جب ہم نے رمضان کی برکتیں سمیٹ لی ہوں۔ عید حقیقی عید تبھی ہے جب ایمان کی فصل کی آبیاری اچھی طرح کی گئی ہو۔عید وہی عید ہے جس میں سلامتی ہی سلامتی ہو۔جس میں امیر غریب ،چھوٹے بڑے سب ایک دوسرے سے مامون ہوں۔

سب کو سلامتی اورعافیت نصیب ہو۔مسلمان سڑکوں ،بازاروں،مساجد ، مدارس ،باغوں،کھیتوں کھلیانوں اوراجتماع گاہوں سے لے کر گھر کے گوشہ تنہائی تک ہر جگہ سلامت ہوں۔وہ کسی کے غلام نہ ہوں۔ کسی کاپنجۂ ستم ان کے حقوق نہ غصب نہ کررہاہو۔کوئی ان کی عزتِ نفس پامال کرنے کی جرأت نہ کرسکتاہو۔
یہ دعابتاتی ہے کہ عید وہی قابلِ رشک ہے جس میں اسلام کی شان نمایاں ہو۔جس میں مسلمان اسلامی شعائر کوزندہ کررہے ہوں۔نمازِ عید میں قومی یک جہتی کاحقیقی سماں نگاہوں کو متاثر کرتاہو۔
معاشرہ ایک شریفانہ معاشرہ ہوجس میں جرائم کاقلع قمع ہوچکاہو اوراحترامِ آدمیت اورشرفِ انسانیت کے مظاہرہر جگہ دکھائی دیتے ہوں،ماحول میں اخوت ومحبت عام ہو۔صدقہ وخیرات کے ذریعے بے کسوں اورناداروں کوبھی عیدکی مسرتوں میں شریک کیاجارہاہو۔
یہ دعا ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ چاندکاگھٹنا بڑھنااوراس کاطلوع وغروب مالکِ حقیقی کی بے پناہ قدرت کاایک ادنیٰ کرشمہ ہے۔ چاند ،سورج ستارے ،سیارے سب اس کی معمولی مخلوقات ہیں۔ اس کی طاقت وقدرت انسانی تصور سے باہر ہے۔ ساری کائنات اس کی مٹھی میں ہے۔ چاند کامالک بھی وہی ہے اورسورج کابھی ۔زمین بھی اس کے اشارے پر چل رہی ہے اوردیگر تمام کواکبِ آسمانی بھی۔ اس کاکوئی شریک نہیں ،،کوئی ساجھی وہم سرنہیں۔ اسی کے دربار میں ہمیں سرجھکاناچاہیے اوراسی سے سب کچھ مانگناچاہیے۔
عید کے دن ہم اللہ کاشکراداکرتے ہوئے تکبیراتِ تشریق پڑھتے ہیں۔ اس دن کے معمولات رمضان سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ نمازِ فجر کے بعد اورنمازِ عید کے دوران کچھ کھالینا مستحب ہے تاکہ ماہِ صیام سے فرق عملاً واضح ہوجائے۔کچھ دیربعد بچے،بوڑھے ،جوان سب نئے کپڑے پہن کر عیدکی نماز کے لیے رواں دواں ہوتے ہیں۔ خواتین گھروں میں محوِ دعاہوتی ہیں۔ گھر کی تزئین وآرائش کرتی ہیں۔نمازِعید کے کچھ دیربعد بچے عیدی مانگتے ہیں اوربڑے شاہ خرچی کامظاہرہ دل کھول کرکرتے ہیں۔پھرمہمان آنے لگتیہیں۔ گھر کے لوگ بھی گاہے گاہے دوسرے اعزہ واقارب سے ملنے نکل جاتے ہیں۔دن بھر یہ سلسلہ جاری رہتاہے۔ ماحول میں ایک عجیب چہل پہل ہوتی ہے۔یہ سب اللہ کے احسانات ہیں ۔یہ اس کافضل ہے جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے کاموقعِ مسرت بھی ساری قوموں سے جدااورسب سے خوبصورت ہے۔
یہ سب خوشیاں اپنی جگہ مگرمسلمان اس وقت جس دینی،سیاسی اورمعاشی زوال کاشکار ہیں ،ہم اس کی کسک سے کسی حال میں بھی آزادنہیں ہوسکتے۔شام کے مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ کر کلیجہ منہ کوآتاہے۔ افغانستان میں اب بھی جنگ جاری ہے ۔ عراق اوریمن کے حالات ہنوز مخدوش ہیں۔ کشمیر میں ظلم وستم کاسلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔فلسطینی بھائی بہن آزادی کوترس رہے ہیں اوراسرائیل جب چاہتاہے ،ان کی آبادیوں پر بم باری کردیتاہے۔ قبلہ اول کی بازیابی مسلمانوں کے لیے ایساچیلنج ہے جس سے عہد ہ برآہوئے بغیر وہ کبھی سراٹھاکرنہیں جی سکتے۔ہماری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی اب تک امریکاکی جیل میں مقید ہے اورہم اس کی رہائی کافریضہ انجام دینے سے بالکل قاصر ہیں ۔یہ تمام چوٹیں ہمارے دل ودماغ پر لگ رہی ہیں۔
مگر ان تمام حالات کے باوجود مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اللہ کاارشاد ہے
تمہی غالب رہوگے ،اگر تم مؤمن ہو۔(آل عمران(
ہم بدل جائیں توحالات بھی بدل جائیں گے۔ دستورِ ہدایت ہمارے پاس ہے ۔منشورِ عروج واقبال مندی ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ فقط عمل کرنے کی دیرہے۔آئیے اس موقع پر ہم دست بددعاہوں کہ اللہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگیاں گزارنے والابنادے۔ انفرادی واجتماعی طورپر حقیقت آشنا کردے۔اللہ ہمارے پریشان حال مسلمان بھائی بہنوں کو آزمائشوں سے نجات دے اورہماری ہرعیدکو حقیقی مسرتوں سے ہم آہنگ فرمادے۔آمین

ہمارے استاد گرامی شیخ القراء حضرت محمد یاسین صاحب پانی پتی قدس سرہ نے گزشتہ سال ۸۰ سال کی عمر میں وفات پائی۔ گزشتہ رمضان ان کی زندگی کا آخری رمضان تھا۔ اہلِ کراچی خوب واقف ہیں کہ ایسا گرم رمضان ان کی زندگی میں پہلے کبھی نہیں آیا۔ دو ہزار سے زائد افراد گرمی سے جاں بحق ہوئے۔ ہسپتالوں میں اتنا رش تھا کہ وارڈوں میں گنجائش ختم ہو گئی۔ ایمبو لینسوں میں لائے گئے مریض وہیں ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر ایمبولینسوں کی قطاروں کے چکر لگا رہے تھے۔ جنگ کے ماحول کا سماں تھا۔ دم توڑنے والوں کی کثرت کے باعث مردہ خانے لاشوں سے بھر گئے تھے۔ ہسپتالوں اور ایدھی کے سرد خانوں میں مزید جگہ نہیں رہی تھی ۔ شہر کے قبرستانوں میں گنجائش ختم ہو گئی تھی۔ کتنی ہی جگہوں پر گورکنوں نے قبر کھودنے سے انکار کر دیا تھا۔ 

اس شدت کی گرمی، ہمارے قاری صاحب نہایت عمر رسیدہ اور سخت بیمار۔ مگر اس حالت میں بھی وہ روزے سے تھے۔ پورے رمضان میں مکمل روزے رکھے۔ ایک دن جو بہت ہی سخت گرم تھا، ان کی حالت غیر ہو گئی۔ مدرسے ہی میں بے ہوش ہو گئے۔ بیٹوں اور شاگردوں نے گھیر لیا۔ طبی امداد دینے کے لیے منہ میں پانی ٹپکانا چاہا تو حضرت کو ہو ش آگیا۔ منہ کو سختی سے بند کر لیا۔ لاکھ کہا گیا ، منتیں کی گئیں کہ روزہ توڑ دیں۔ مگر حضرت نے انکار کر دیا۔ افطار کے وقت ہی منہ کھولا۔ پانی پیا اور دوا بھی لی۔ شروع کے چند روزے اسی شدت کی حالت میں گزرے۔ پھر اللہ کا کرنا ہی یہ ہوا کہ طبیعت ٹھیک ہو گئی۔ باقی روزے بڑے اطمینان سے رکھے۔
یہ تو بڑوں اور بزرگوں کی بات تھی۔ مگر رمضان میں وہ بچے بھی جنہیں ہم شیطان کہتے ہیں کیسے اللہ والے بن جاتے ہیں۔ ہر گھر میں جہاں روزوں کا اہتمام ہوتا ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ضد کر کے گرمی کے روزے رکھتے ہیں۔ اگر نہ جگایا جائے تو اٹھنے کے بعد سارا دن منہ بنائے رہتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ ایمان کی بہار نہیں تو اور کیا ہے۔
ہماری امی قصہ سناتی ہیں کہ قاری محبوب الہٰی (راقم کے بڑے بھائی) جب چار پانچ سال کے تھے تو بڑی گرمی کا رمضان تھا۔ وہ روز ضد کرتے تھے کہ مجھے سحری میں اٹھانا میں روزہ رکھوں گا۔ مگر ہم یہ سوچ کر کہ بچہ ہے کہاں روزہ رکھ سکے گا، سحری میں نہیں اٹھاتے تھے۔
ایک دن رات کو جب سونے کا وقت ہوا تو دیکھا کہ محبوب میاں اچھل اچھل کر الماری پر چڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوچھا : ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ کہنے لگے :’’قرآن اتار رہا ہوں۔‘‘
امی کہتی ہیں میں نے قرآن اتار کر دے دیا کہ دیکھوں کیا کرتا ہے پڑھنا تو آتا نہیں۔ اب کیا کرے گا محبوب نے قرآن ہاتھ میں لیا اور مجھے دے کر کہنے لگا:
’’اس پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھائیں کہ مجھے سحری میں اٹھائیں گی۔‘‘
ہم حیران رہ گئے۔ پھر سحری میں اٹھانا ہی پڑا۔
اللہ کرے ہم ان بچوں سے سبق لیں ۔ ان بزرگوں سے سبق لیں۔ روزے کو پوری لذت اور سرور کے ساتھ رکھیں۔ اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کے مقابلے میں روزے کی سختی بھلا کیا سختی ہے۔ دنیا کی فانی محبتوں میں مبتلا لوگ کہتے ہیں
؎الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر چیز میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو
تو ہم کیوں نہ کہیں کہ
متاعِ جان جاناں جان دے دیں پھر بھی سستی ہے!
اللہ ہمیں ایمان و احتساب کے ساتھ تمام آداب کی رعایت کرتے ہوئے روزے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!