٢٨اپریل ٢٠١٤ پیر کا دن ، ١١ بجے کا عمل تھا جب بڑے بھائی دوڑ کر آئے۔
"ابو ..ابو جلدی چلئے حادثہ ہوا ہے بہت سے بچے زخمی ہیں ، جا کر دیکھتے ہیں کہ زاہد بھائی کہاں ہے؟
پھر گھر میں غم اور کہرام مچ گیا۔ ہر ایک عافیت کی دعا کرنے لگا۔
بڑے بھائی نے پکارا : " ابو اس طرف آئیں زاہد کے جوتے ٹوپی اور بیگ ملا ہے جس پر خون کے چھینٹے ہیں یقیناً وہ بھی ان بچوں میں ہو گا۔ ‘‘
آنا فانا پولیس نے اس جگہ کا احاطہ کر لیا اور لواحقین کو ہسپتال بھیج دیا۔
ابو اور بھائی بھی نڈھال قدموں سے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کی طرف گئے ، ہر طرف کرام مچا ہوا تھا ایک جانب زخمی بچے تھے ان میں زاہد نظرنہیں آیا دوسری طرف ان بچوں کی میتیں تھیں جو جاےٴ وقوعہ پر دم توڑ چکے تھے۔
ابو کی آنکھوں میں آنسو تھے بڑے بھائی کے سہارے ایک ایک بچے کے چہرے سے چادر ہٹا رہے تھے کہ تیسرے بچے کے چہرے سے چادر ہٹائی تو ابو اور بھائی ساکت رہ گئے آنکھوں سے بے ساختہ آنسو ابل بڑے۔ وہ معصوم سا شدید زخمی چہرہ زاہد کا تھا پورا جسم خون سے لہولہان تھا۔
یہ وہ صبح تھی جس کےلئے کئی دنوں سے زاہد امی سے اصرار کر رہا تھا کہ ابو کو قاری صاحب کے پاس بھیج کر میرے مدرسہ کاوقت صبح میں کروا دیں دوپہر میں اسکول جاؤں گا زاہد کے اصرار پر امی کو مانتے ہی بنی۔
امی نے کہا: بیٹا میں بات کر لوں گی تم چلے جاؤ ۔ ماں کو کیا خبر تھی کہ زاہد شہید بن کے آئے گا ۔ خود امی نے تیار کر کے معصوم سے زاہد کو روانہ کر دیا اور وہ خوشی خوشی اپنے دوستوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے چل دیا۔
زاہد ہم بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھا ۔ 12 سال کی عمر کا یہ بچہ ہمیشہ وہ کام کرتا کہ سب کی توجہ کا مرکز بن جاتا ۔بہت شرارتی مگر ہر ایک کا خیال رکھنے والا اور خدمت کا جذبہ رکھتا تھا ۔گھروالوں کے ساتھ ساتھ محلے والوں کا بھی پیارا تھا ۔ ہمیشہ اچھی فرمائش کرتا۔
مجھے اکثر کہتا تھا:باجی ! "میں حفظ کروں گا اور بڑے ہو کر قاری بنوں گا ۔ "
ایک ہفتہ بعد جب چچا جان مسجد گئے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کیونکہ نمازیوں کے جوتے بے ترتیب پڑے تھے۔ زاہد کی ایک پیاری عادت یہ بھی تھی کہ نمازیوں کے جوتے ترتیب سے رکھ کر نماز پڑھنے مسجد کے اندر جاتا ۔شہید زاہد مخلوق کی نظروں میں محبوب تھا تو الله رب العزت کے ہاں بھی محبوب ٹہرا۔
شہیدوں کے لہو سے جو زمین سیراب ہوتی ہے
بڑی سرسبز ہوتی ہے بڑی شاداب ہوتی ہے!