کیا تنہا جنت میں جانا ہے؟

ابھی میری ایک دوست سے بات ہورہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کچھ عرصے پہلے لکھتی تھیں پھر انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ میں نے کہا آپ لکھا کریں۔ اللہ نے جو آپ کے اندر صلاحیت رکھی ہے اس کو ضرور استعمال میں لائیں۔ کہنے لگیں۔ میں عبادت کرتی ہوں ۔ درس سننے بھی جاتی ہوں۔ مجھے اس روٹین میں سکون ملتا ہے۔ گھر کے کام کرکے مجھے خوشی ملتی ہے۔ میں نے کہا ۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ 

مجھے ایک کہانی یاد آگئی ہے۔ کسی تالاب میں دو مینڈک رہا کرتے تھے۔ موٹو اور چھوٹو۔ وہ دونوں گہرے دوست تھے۔ اکھٹے کھیلے کودتے اور اٹکھیلیاں کرتے۔ ایک دن جب آندھی چلی تو تالاب کے کنارے اگے ہوئے درختوں سے بہت سارے پتے پانی میں آگرے

 

مینڈک بہت خوش ہوئے اور لگے پتوں سے کھیلنے۔ اچانک چھوٹو اچھل کر ایک بڑے پتے کے اوپر بیٹھ گیا اور تیرنے لگا۔ تیرتے تیرتے وہ تالاب کے اس کنارے پر چلا گیا۔ وہاں دوسرے مینڈکوں سے اس کی ملاقات ہوئی جو اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ پھر یہ اس کا معمول بن گیا۔ وہ روز پتے پر تیر کر تالاب کے دوسرے کناروں پر چلا جاتا، دوسرے مینڈکوں سے بات چیت کرتا ۔ حتی الامکان ان کی مدد کرتا۔ چھوٹو کو کیچوے پکڑنے میں بڑی مہارت تھی۔ کئی ننھے مینڈکوں کو اس نے یہ فن سکھا دیا۔ کبھی اس کے پاس کھانا بچ جاتا تو وہ بھی ساتھ لے جاتا اور کسی بھوکے مینڈک کو دے آتا۔ سبھی اس سے بے حد خوش تھے اور ہر روز اس کا بے تابی سے انتظار کرتے۔
موٹو مینڈک اس کی اس روٹین سے بہت ناراض تھا۔ ایک دن وہ غصے میں مچھلی کو بتانے لگا۔’’ دیکھو بہن! میں نے تو کئی بار چھوٹو کوسمجھایا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ اللہ اللہ کرو۔ کیا ضرورت ہے یہاں وہاں گھومنے پھرنے کی۔ بھئی دوسرے کنارے والے جانیں ان کا کام جانیں۔ ہم نے ان کا کوئی ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ جب دیکھو کبھی کوئی کیچوا کبھی کوئی کیڑا اٹھا کر لے جارہا ہے ۔ اور پھر تھکا ہارا واپس آتا ہے۔ بھئی اتنی ٹینشن کاہے کی؟ اپنے گھر میں رہو۔ اپنی زندگی گزارو۔ مزے کرو۔ کیا پڑی ہے دوسرے مینڈکوں سے جا کرملنے ملانے کی؟‘‘ بی مچھلی کچھ دیر سنتی رہی پھر بولی۔ ’’بھائی مینڈک! اگر چھوٹو ، تالاب کے دوسرے کنارے رہنے والے مینڈکوں کے پاس نہیں جائے گا تو عین ممکن ہے اس کی جگہ پرلے جوہڑ میں رہنے والے بدمعاش مینڈک لے لیں۔ پھر آپ ہی پریشان ہوتے پھریں گے۔ جب نیک لوگ اپنی صلاحیتوں کا استعمال روک لیتے ہیں تو برے لوگ کی طاقت دگنی کر دی جاتی ہے۔‘‘
میں سوچتی تھی یہ کیسے ہو جاتا ہے کہ ایک شخص کو کوئی استاذ میسر نہیں آتے لیکن وہ بغیر کسی رہنمائی کے کس ایک فن میں ماہر ہو جاتا ہے اور اس فن کا باشاہ کہلانے لگتا ہے۔ سوچتے سوچتے میرے ذہن میں ایک بات آئی۔ مولانا طارق جمیل صاحب فرماتے ہیں کہ انسانی دماغ میں اگر یہ خواہش پیدا ہو کہ مجھے کبھی موت نہ آئے یا یہ خواہش پیدا ہو کہ میں سدا جوانی کے عالم میں رہوں بڑھاپا مجھے چھو کر بھی نہ گزرے تو یہ خواہش غیر فطری بالکل نہیں۔ یہ خواہش اللہ نے انسان کے دل میں ڈالی ہے۔ فطرتاً ہر ایک یہی خواہشات رکھتا ہے۔ قدرت ہمیں ایسا سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ دیکھیں! جس طرح اللہ نے انسان کے دماغ میں ایک خاص مقصد اور لانگ ٹرم پروگرامنگ کے تحت خواہشات Input کر رکھی ہیں ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں بھی مختلف ہنر اور صلاحیتیں Embed کر دی ہیں۔
آپ خود سوچیں میرا دل کیوں کرتا ہے میں لکھوں؟ میری چھوٹی بہن کا دل کیوں کرتا ہے کہ وہ بہترین سے بہترین ڈیزائنگ والے کپڑے سیے۔ میری بڑی بہن کا دل کیوں کرتا ہے کہ وہ گھر کے کاموں کی اتنی تھکاوٹ کے باوجود محلے کے ننھے بچوں کو پوری توجہ سے پڑھائے؟ کئی لوگو ں کو جب تک وہ کوئی تخلیقی کام نہ کر لیں، چین نہیں آتا۔
جب ہم ایف سی میں ہوتے تھے تو میں نے کمپیوٹر سبجیکٹ رکھا تھا جو کہ عام طور میڈیکل کی نسبت آسان ہوتا تھا۔ تو ہم لوگ بہت مستی اور شرارتیں کرتے تھے۔ اکثر ہم فری ٹائم میں یہاں وہاں گھومتے رہتے ۔ کبھی کینٹین کبھی لان میں، کبھی کسی کو تنگ کیا کبھی کسی کلاس کے سامنے سے بار بار گزرتے۔ تو میں اکثر دیکھتی کہ میڈیکل کی ایک لڑکی ہر وقت پڑھ رہی ہوتی۔ حتیٰ کہ بریک ٹائم میں بھی اس کے ایک ہاتھ میں برگر اور دوسرے ہاتھ میں بائیو کی کتاب ہوتی۔ کیوں؟ اس کا دل اتنی شدت سے کیوں کرتا تھا کہ و ہ ڈاکٹر بنے؟ اور آپ کو مزے کی بات بتاؤں وہ ڈاکٹر بن بھی گئی۔ شادی کے کئی سال بعد میں بلڈ ٹیسٹ کے لیے ایک ہاسپٹل میں گئی تو میں نے اسے گائنی ڈاکٹر کے روپ میں دیکھا۔ اس نے بھی مجھے پہچان لیا۔ کالج میں تو ہماری اتنی اچھی دوستی نہیں تھی لیکن اسے ہاسپٹل میں دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نے اسے بہت مبارکباد دی اور ہم نے کافی اچھی گپ شب لگائی۔ پتہ نہیں کیوں آج بھی اس کی آنکھوں کی چمک یاد آتی ہے جو بہت محنت کر کے ایک مقصد کو پالینے کے بعد پیدا ہوتی ہے تو مجھے دلی خوشی ہوتی ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے میں ایک رسالے کی مدیرہ کا انٹرویو پڑھ رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے لکھنا نہیں آتا اور میں نے کبھی کوشش بھی نہیں کی۔کیو نکہ اللہ نے یہ صلاحیت میرے اندر نہیں ڈالی تھی۔ لیکن میں پڑھتی بہت تھی۔ کام کے اوائل دنوں میں کسی ناول کو لے کر میری اپنے ہیڈ کے ساتھ کئی بار گفتگو ہوتی اور میں ہمیشہ انہی پوائنٹس لے کر اٹکی ہوتی تھی جس پر میرے ہیڈ غور کررہے ہوتے۔ کیسے اور کیوں؟ کیا اتفاقاً؟ جی نہیں! میری بات یاد رکھیے گا فطرت کا کوئی کا م اتفاقی یا یونہی نہیں ہوتا۔ فطرت ہر کام بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہے۔ تو رسالے کی ادارت کرنا، تحریروں کو بغور پڑھنا اور منتخب کرنا فطری طور پر ان کا ہنر تھا جس کو ان کے ہیڈ نے پالش کر دیا اور آج وہ پچھلی تین دہائیوں سے اس رسالے کو بڑی کامیابی کے چلا رہی ہیں۔
جب امت مسلمہ کا ماحول یہ ہو کہ ایک جانب مسلمان بری طرح پس رہے ہوں دوسری جانب مسلمان اس طرح اپنی زندگیوں میں مگن ہوں جیسے باطل کے حملے کبھی ان کے گھر تک نہیں آسکتے۔ دنیا دار مسلمان دنیا کی چاہت میں ہر جائز ناجائز طریقے سے دھن دولت کمانے میں مگن ہوں اور دینی سوجھ بوجھ رکھنے والے مسلمان ہر طرح کے حالات کی طرف سے آنکھیں بند کیے ، اپنی عبادات اور نوافل پر قناعت کیے بیٹھے ہوں۔ پھر آپ بتائیں! میرے جیسے لوگ کہاں جائیں؟ جن کو ایک ترغیب بس چھوٹی سی ترغیب راہ راست پر لا سکتی ہے۔ جن کو ایک چھوٹا سا محبت بھرا میسج، کوئی دینی ایکٹو ویب سائیٹ، کوئی اچھا سا بلاگ، کسی بیان کی ویڈیو، کوئی دینی چینل جہاں ہر ممکن جدید وسیلہ دین کی دعوت کے لیے استعمال کیا جائے، بچوں کے لیے کہانیاں، بڑوں کے لیے مضامین، کوئی ایکٹو فیس بک پیچ، واٹس ایپ ٹیلی گرام انسٹا گرام ٹویٹر پر دینی اپ ڈیٹس، یہ سب کون کرے گا؟ دینی سوچ رکھنے والے لوگ ہی آنکھیں بند کر لیں گے اور ہاتھ روک کر رکھیں گے تو پھر ان کی جگہ دنیوی سوچ رکھنے والے آجائیں گے۔پھر اگر میرا اور آپ کا بچہ گمرا ہ ہو جائے تو ہمیں گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔
کتنے ہی ایسے لوگ ہمارے اردگرد ہوتے ہیں جن کو دین پر چلنے کے لیے صرف ایک چھوٹی سا جملہ چاہیے ہوتا ہے اور وہ ہم ان کو نہیں دے رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہماری عبادت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ ہمارے ذکر اذکار اور مسنون دعاؤں کا معمول خراب نہ ہو۔ ہمارے نوافل نہ کہیں چھوٹ جائیں۔ اور میں آپ کو بتاؤں، شیطان ہمیں اسی روٹین پر بہت پرسکون اور پر اعتماد رکھتا ہے۔ اردگرد لوگوں پر توجہ ہی نہیں ڈالنے دیتا۔ ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ ایک بڑی خوبصورت کتا ب ہے جس میں ہندو مذہب چھوڑ کراسلام قبول کرنے والوں سے انٹریو کیے گئے ہیں۔ ایک نو مسلم سے جب ان کے والدین کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ رو پڑے۔ اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ پھر بتانے لگے کہ میرے والد فطرتاً مسلمان تھے۔ سارے کام وہ مسلمانوں کے طریقوں پر کرتے تھے۔ ہندو مذہب سے فطری طور پر نفرت کرتے تھے۔ مسلمانوں کو بہت دوست رکھتے تھے۔ لیکن! کسی ساتھی مسلمان نے کبھی ایک دفعہ بھی ان سے کلمہ پڑھنے کا نہ کہا۔ کسی نے ان کو اسلام کے بارے میں زیادہ نہ بتایا۔ کسی نے ان کو کسی ذریعے سے ترغیب تک نہ دی ۔ وہ کفر ہی کی حالت میں دنیا سے چلے گئے۔ میرے لیے یہ تصورہی سوہانِ روح ہے کہ میرے والد جہنم کی آگ میں جلیں گے۔ اتنا کہہ کر وہ پھر زاروقطار رونے لگے۔
’’ تم ایک بہترین امت ہوجولوگوں کےلیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اوربری باتوں سے روکتے ہو اوراللہ تعالی پرایمان رکھتے ہو ۔‘‘ آل عمران ( 110 ) ۔ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔’’اس آیت میں امت محمدیہ کے خیر الامم ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ خلق اللہ کو نفع پہچانے ہی کے لیے وجو د میں آئی ہے۔ اور خلق اللہ کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکر اس کا منصبی فریضہ ہے۔‘‘ (معارف القرآن) جب ہم سوچ رہے ہوتی ہیں کہ ہمارا کام تو بس عبادت کرنا اور گھر کے کام کرنا ہے... جب ہم یہ سوچ کر بہت پرسکون ہیں کہ ہماری اپنی زندگی بالکل صحیح ڈگر پر رواں دواں ہے... جب ہم اللہ تعالیٰ کی ودیعت کی گئی صلاحیتوں، اسباب اور ذرائع کو یکسر نظر انداز کرکے صرف ذاتی عبادتوں پر فخر کرتے رہتے ہیں... جب ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے کسی موثر طریقے کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتے .... تو میری بات یاد رکھیے! ہم نہ صرف اپنے اہم ترین دین فریضے سے کوتاہی کے مرتکب ہیں بلکہ ان بے شمار لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر پر لیے بیٹھے ہیں جن کو ہماری ایک چھوٹی سی ترغیب دین پر لا سکتی تھی۔ ہمارا ایک چھوٹا سا میسج، ایک چھوٹی سی تحریر، ایک بٹن کے دبانے تک کا عمل، ایک ویڈیو شئیر کرنے کا عمل ، ایک بیان آگے فارورڈ کردینے کا عمل ، ایک ویب سائٹ کا پتہ بتادینے کا عمل کسی کو روشنی دکھا سکتا تھا کسی کو صحیح راستے کا سائن بورڈ دکھا سکتا تھا لیکن ہم نے نہیں کیا۔
ایک حدیث پرمبنی پوسٹ ڈیزائن کرنے کی صلاحیت، دینی ویب سائٹ بنانے کی صلاحیت، اچھا سا کھانا بنا کر دلوں کو نرم کرنے کی صلاحیت، اچھی سی خدمت کر کے بات منوانے کی صلاحیت، تدریس کے ذریعے اپنی بات پھیلانے کی صلاحیت، ایک چھوٹا سا پر تاثیر بیان کرنے کی صلاحیت، ایک کہانی یا مضمون لکھ کر دین کی بات کرنے کی صلاحیت، اچھا سا سوٹ سی کر پکڑاتے ہوئے دین کی نصیحت کرنے کی صلاحیت، بیانات پر مبنی بلاگز بنانے کی صلاحیت..... یا جو بھی اور جتنی بھی صلاحیت آپ کے پاس موجود ہے ، خدارا اس کو دین کے لیے استعمال میں لائیں۔ جنگ کا سماں ہے ۔ امت پر ہر طرح سے حملہ کیا جارہا ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کفر توتاک تاک کر نشانہ بنائے ، پوری تیاریاں کرکے سامنے آئے، سب ذرائع لے کر پلاننک کے ساتھ میدان میں کھڑا ہو اور میں پرسکون نیند سوؤں مطمئن دن گزاروں۔
میری بات رکھیے! عبادت اور گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات میں موجود صلاحیتیں اگر آپ دین کی تبلیغ کے لیے استعمال میں نہیں لاتیں تو آپ وہ زمین ہیں جو موسلا دھار بارش کے بعد سر سبز و شاداب تو ہوتی ہے لیکن اس سے خود آپ کے علاوہ اور کسی ذی روح کو فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں!