حرفِ اول

رمضان پھر آرہا ہے اور بھرپور گرمی کےساتھ ۔ یعنی اس بار بھی رمضان گرما گرم ہے۔ اللہ سب کو ہمت دے کہ وہ گرمی کے روزے پوری ہمت اور جذبے کے ساتھ رکھیں۔ کوئی بھی مشکل کام ہو ، مسئلہ اسے شروع کرنے کا ہوتا ہے۔ جب ہم نیت کرکے، دل مضبوط کر کے کام شروع کر دیتے ہیں تو سمجھیے آدھا کام ہو جاتا ہے۔ بس اب تسلسل باقی رکھنا ہوتا ہے اور وہ الحمد للہ ہو ہی جاتا ہے۔
رمضان میں پہلے بار گرمی نہیں ہو رہی ۔ جب سے روزے فرض ہوئے ہیں تب سے ہر تیس سال کے بعد موسموں کا ایک چکر پورا ہوتا چلا آرہا ہے۔ تیس سال پہلے روزے جون میں آئے تھے اور اب پھر جون میں ہیں۔

اس وقت کے بچے آھ بھرپور جوان ہیں اور جوان آج بوڑھے ہیں مگر روزہ رکھنے والے روزہ رکھتے ہی ہیں۔ انہیں منع بھی کریں تو نہیں رکتے۔


ہمارے استاد گرامی شیخ القراء حضرت محمد یاسین صاحب پانی پتی قدس سرہ نے گزشتہ سال ۸۰ سال کی عمر میں وفات پائی۔ گزشتہ رمضان ان کی زندگی کا آخری رمضان تھا۔ اہلِ کراچی خوب واقف ہیں کہ ایسا گرم رمضان ان کی زندگی میں پہلے کبھی نہیں آیا۔ دو ہزار سے زائد افراد گرمی سے جاں بحق ہوئے۔ ہسپتالوں میں اتنا رش تھا کہ وارڈوں میں گنجائش ختم ہو گئی۔ ایمبو لینسوں میں لائے گئے مریض وہیں ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر ایمبولینسوں کی قطاروں کے چکر لگا رہے تھے۔ جنگ کے ماحول کا سماں تھا۔ دم توڑنے والوں کی کثرت کے باعث مردہ خانے لاشوں سے بھر گئے تھے۔ ہسپتالوں اور ایدھی کے سرد خانوں میں مزید جگہ نہیں رہی تھی ۔ شہر کے قبرستانوں میں گنجائش ختم ہو گئی تھی۔ کتنی ہی جگہوں پر گورکنوں نے قبر کھودنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس شدت کی گرمی، ہمارے قاری صاحب نہایت عمر رسیدہ اور سخت بیمار۔ مگر اس حالت میں بھی وہ روزے سے تھے۔ پورے رمضان میں مکمل روزے رکھے۔ ایک دن جو بہت ہی سخت گرم تھا، ان کی حالت غیر ہو گئی۔ مدرسے ہی میں بے ہوش ہو گئے۔ بیٹوں اور شاگردوں نے گھیر لیا۔ طبی امداد دینے کے لیے منہ میں پانی ٹپکانا چاہا تو حضرت کو ہو ش آگیا۔ منہ کو سختی سے بند کر لیا۔ لاکھ کہا گیا ، منتیں کی گئیں کہ روزہ توڑ دیں۔ مگر حضرت نے انکار کر دیا۔ افطار کے وقت ہی منہ کھولا۔ پانی پیا اور دوا بھی لی۔ شروع کے چند روزے اسی شدت کی حالت میں گزرے۔ پھر اللہ کا کرنا ہی یہ ہوا کہ طبیعت ٹھیک ہو گئی۔ باقی روزے بڑے اطمینان سے رکھے۔
یہ تو بڑوں اور بزرگوں کی بات تھی۔ مگر رمضان میں وہ بچے بھی جنہیں ہم شیطان کہتے ہیں کیسے اللہ والے بن جاتے ہیں۔ ہر گھر میں جہاں روزوں کا اہتمام ہوتا ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ضد کر کے گرمی کے روزے رکھتے ہیں۔ اگر نہ جگایا جائے تو اٹھنے کے بعد سارا دن منہ بنائے رہتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ ایمان کی بہار نہیں تو اور کیا ہے۔
ہماری امی قصہ سناتی ہیں کہ قاری محبوب الہٰی (راقم کے بڑے بھائی) جب چار پانچ سال کے تھے تو بڑی گرمی کا رمضان تھا۔ وہ روز ضد کرتے تھے کہ مجھے سحری میں اٹھانا میں روزہ رکھوں گا۔ مگر ہم یہ سوچ کر کہ بچہ ہے کہاں روزہ رکھ سکے گا، سحری میں نہیں اٹھاتے تھے۔
ایک دن رات کو جب سونے کا وقت ہوا تو دیکھا کہ محبوب میاں اچھل اچھل کر الماری پر چڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوچھا : ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ کہنے لگے :’’قرآن اتار رہا ہوں۔‘‘
امی کہتی ہیں میں نے قرآن اتار کر دے دیا کہ دیکھوں کیا کرتا ہے پڑھنا تو آتا نہیں۔ اب کیا کرے گا محبوب نے قرآن ہاتھ میں لیا اور مجھے دے کر کہنے لگا:
’’اس پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھائیں کہ مجھے سحری میں اٹھائیں گی۔‘‘
ہم حیران رہ گئے۔ پھر سحری میں اٹھانا ہی پڑا۔
اللہ کرے ہم ان بچوں سے سبق لیں ۔ ان بزرگوں سے سبق لیں۔ روزے کو پوری لذت اور سرور کے ساتھ رکھیں۔ اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کے مقابلے میں روزے کی سختی بھلا کیا سختی ہے۔ دنیا کی فانی محبتوں میں مبتلا لوگ کہتے ہیں
؎الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر چیز میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو
تو ہم کیوں نہ کہیں کہ
متاعِ جان جاناں جان دے دیں پھر بھی سستی ہے!
اللہ ہمیں ایمان و احتساب کے ساتھ تمام آداب کی رعایت کرتے ہوئے روزے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!