حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نعلین پاک استعمال فرمائے وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان نعلین پاک کو تبرکاً محفوظ رکھا اور ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہے۔ ان بابرکت نعلین پاک کے حوالے سے چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اور ایک پیالہ بھی محفوظ تھا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی نوش فرماتے تھے۔ نعلین پاک کے حوالے سے حضرت عیسیٰ بن طہمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں بغیر بال کے چمڑے کے دو نعلین مبارک نکال کر دکھائے جن کے دو تسمے تھے۔ بعد میں ثابت بُنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی کہ یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک ہیں۔‘‘ (بخاری، ترمذی)
2۔ ایک دفعہ حضرت عبید بن جُریح نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے پوچھا کہ ’’میں آپ کو بالوں سے صاف کی ہوئی کھال کی جوتی پہنے ہوئے دیکھتا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی جوتیاں پہنے ہوئے دیکھا ہے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں وضو فرماتے تھے لہٰذا میں ایسی جوتیاں پہننا پسند کرتا ہوں۔‘‘
(بخاري، الصحيح، 1 : 73، کتاب الوضوء، رقم : 164)
3۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’المواہب اللدنیۃ (2 : 118۔119)‘ میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادمین میں سے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں تکیہ، مسواک، نعلین اور وضو کے لیے پانی لے کر حاضر رہتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعلین مبارک پہنا دیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اٹھا کر بغل میں دبالیتے تھے۔
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کی بابت ابوبکر احمد بن امام ابو محمد عبداللہ بن حسین قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
و نعلٍ خضَعْنا هيبةً لِبَهائِها
و إنَّا متی نَخضَع لها أبدًا نعلو
فَضَعْها علي أعلَی المَفارِق إنها
حقيقَتُهَا تاجٌ و صورتُها نعلٌ
’’ایسے جوتے کہ جن کی بلند و بالا عظمت کو ہم تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ اس عظمت کو تسلیم کر کے ہی ہم بلند ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انہیں بلند ترین جگہ پر رکھو کیونکہ درحقیقت یہ (سَر کا) تاج ہیں اگرچہ دیکھنے میں جوتے ہیں۔‘‘(قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 470)
مولانا محمد زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں :
’’نعل شریف کے برکات و فضائل مولانا اشرف علی تھانوی کے رسالہ ’زاد السعید‘ کے آخر میں مفصل مذکور ہیں جس کو تفصیل جاننا مقصود ہو، اس میں دیکھ لے۔ مختصر یہ کہ اس کے خواص بے انتہا ہیں، علماء نے بارہا تجربے کئے ہیں۔ اسے اپنے پاس رکھنے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے، ظالموں سے نجات اور لوگوں میں ہر دلعزیزی حاصل ہوتی ہے، غرض اس کے توسل سے ہر مقصد میں کامیابی ہوتی ہے، طریقِ توسل بھی اسی میں مذکور ہے۔‘‘
نقشِ نعلین پاک کے حوالے سے امام ابن فہد مکی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ کی ایک کثیر تعداد نے اپنا اپنا یہ تجربہ بیان کیا کہ یہ جس لشکر میں ہو گا وہ فتح یاب ہو گا جس قافلے میں ہو گا وہ بحفاظت اپنی منزل پر پہنچے گا، جس کشتی میں ہو گا وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی، جس گھر میں ہو گا وہ جلنے سے محفوظ رہے گا، جس مال و متاع میں ہو گا، وہ چوری سے محفوظ رہے گا اور کسی بھی حاجت کے لئے صاحبِ نعلین (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توسل کیا جائے تو وہ پوری ہو کر رہے گی اور اس توسل سے ہر تنگی فراخی میں تبدیل ہو گی۔
برکاتِ نعلینِ پاک کے حوالے سے بعض واقعات و مشاہدات جن کو امام مقری نے اپنی کتاب ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ میں بیان کیا ہے، درج ذیل ہیں :
1۔ شدید درد کا ازالہ:
ابو جعفر احمد بن عبدالمجید جو کہ بہت بڑے عالم با عمل اور متقی و پرہیزگار شخص تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک طالب علم کو نعلین پاک کا نقش بنوا دیا۔ ایک دن وہ میرے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نے گذشتہ رات اس نقش کی ایک حیران کن برکت کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کونسی ایسی عجیب برکت دیکھی ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ میری اہلیہ کو اچانک اتنا شدید درد ہوا کہ جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ تھی پس میں نے نعلین پاک کا یہ نقش اس کے درد والی جگہ پر رکھا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی:’’اے اللہ! آج ہم پر صاحبِ نعل (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی برکت و کرامت ظاہر فرمادے۔‘‘
اس طالب علم نے بیان کیا کہ پس اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے میری بیوی کو فوراً شفا عطا فرمائی۔(قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 466، 467)
2۔ مفتی محمد قصار المغیشی حادثہ میں محفوظ رہے:
شہر فاس کے مفتی شیخ محمد قصار کے بچپن کا واقعہ ہے جس کو ثقہ اہل علم نے بیان کیا ہے : وہ یہ کہ بچپن میں مفتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب اپنے بعض رشتہ داروں کے ساتھ اپنے گھر کے نچلی منزل میں بیٹھے تھے۔ یہ بھی شہر فاس کی دیگر عام عمارتوں کی طرح ایک بڑی عمارت تھی جس کی بڑی بڑی دیواریں اور اونچے کمرے تھے۔ ان لوگوں کے سروں کے عین اوپر دیوار پر نقشِ نعلین پاک اس قدر بلندی پرلگا ہوا تھا کہ اگر کوئی شخص کھڑا ہو تو وہ سر کے برابر ہو۔ اللہ کی شان اوپر والی منزل نچلی منزل پر گر گئی اور پوری عمارت منہدم ہوگئی۔ لوگوں نے ملبے تلے دبے ہوئے لوگوں کی موت کا یقین کر لیا اور ایک دن سے زائد وہ ملبے تلے دے رہے۔ ایک دن کے بعد لوگ کفن دفن کی غرض سے ملبہ ہٹاتے ہٹاتے ان تک پہنچے تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ نیچے دبے ہوئے جملہ افراد نقشِ نعلینِ پاک کی برکت سے زندہ و سلامت ہیں اور انہیں کوئی گزند تک نہیں پہنچی۔
یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ پاک کا صدقہ تھا کہ وہ اس جان لیوا حادثہ میں بال بال بچ گئے، ہوا یوں کہ جب اوپر والی دیوار گرگئی تو وہ ان پر مانند خیمہ ٹھہر گئی۔ دیوار کا اوپر والا حصہ اس جگہ سے جا لگا جس کے نیچے نعلین پاک تھا اور نچلا حصہ زمین میں کھڑا ہو گیا جس کے بعد مٹی پتھر وغیرہ پہاڑ کی طرح اوپر سے نیچے گرتے رہے، یہ لوگ اس کے نیچے محفوظ رہے۔ یوں اللہ سبحانہ و تعالی نے نعلین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ان کو ہر قسم کی تکلیف اور نقصان سے اپنی حفاظت میں رکھا۔(مقری، فتح المتعال فی مدح النعال، 470، 471)
3۔ شیخ عبدالخالق بن حب النبی مالکی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سال نصف رمضان کو مجھے ایک پھوڑا نکل آیا اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا ہے اس کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف لاحق ہوئی۔ میں اس مرض کے ماہر اطباء اور جراح کے پاس گیا مگر کوئی بھی اس تکلیف کو سمجھ سکا اور نہ کوئی اس کا علاج تجویز کر سکا۔ مجھے شدت تکلیف نے بے چین کیا ہوا تھا۔ پھر جب اچانک مجھے اس نقشِ نعلِ پاک کے فضائل و برکات یاد آئے تو میں نے اس نقش کو جائے تکلیف پر رکھا اور دعا کی :.
’’اے اللہ! تجھ سے تیرے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ دیتے ہوئے سوال کرتا ہوں جو کہ اس نعل مبارک میں چلتے رہے ہیں جس کا یہ نقش ہے۔ اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے پروردگار! مجھے اس بیماری سے شفا عطا فرما۔‘‘
وہ فرماتے ہیں خدا کی قسم مجھے ایک دن کے اندر ایسا افاقہ ہوا گویا کہ تکلیف تھی ہی نہیں۔‘‘
اس بحث سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عشق و محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اشیاء کی تعظیم و تکریم ہی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ جیسا کہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضورﷺ
تو پھر کہیں گے کہ ہاں، تاجدار ہم بھی ہیں