’’تم لوگوں کی فرمائشیں ہی ختم نہیں ہوتیں۔جب دیکھو نیا مطالبہ لے کر آجاتی ہو۔ ہمارے پاس بھی کوئی خزانہ نہیں ہے بی بی۔محنت کی کمائی ہے لٹا نہیں سکتی ۔‘‘ جھنجهلائے لہجے میں سکینہ کی کلاس لی تھی میں نے۔سکینہ چپ چاپ اٹھ کے کام پہ لگ گئی مگر میرا موڈ خراب ہی رہا۔ میں جو شاپنگ کے بارے میں سوچ رہی تھی بدمزہ ہو گئی تھی۔ کافی دیر تک بڑبڑاتے ہوئے غصہ نکال کرمیں اب نئے سرے سے شاپنگ کی لسٹ بنانے لگی۔
میں کچھ دن پہلے ہی درس قران کے واٹس ایپ گروپ میں ایڈ ہوئی تھی۔ ویسے تو سب علمائے کرام کے بیان اثر انگیز ہوتے ہیں مگر مولانا طارق جمیل صاحب کی تو بہت ہی خاص بات ہے۔ اللہ نے ان کی زبان میں بہت تاثیر رکھی ہے۔ وہ کام جو میں نہیں کر پا رہی ہوتی کبھی سستی اور کبھی دنیاوی کاموں کی وجہ سے ان کے بیان سن کر پتا نہیں کیسے کر لیتی ہوں دل سے اور وہ کام کر کے اللہ میرے دل میں بہت اطمینان ڈال دیتے ہیں۔ آج شام بھی شاپنگ کے لیے جاتے ہوئے میں نے حسب معمول انکا بیان لگایا۔
یہ شارٹ ویڈیو کلپ آج ہی آئی تھی۔مجھے لگا یہ میرے لیے ہی آئی تھی اور میں بالکل صحیح وقت پہ سن رہی تھی ۔’’اپنے نوکروں پہ رحم کرنا ۔ میری امت کے غریبوں پہ رحم کرنا سخت دل مت ہوجانا فرعون نہ بن جانا۔یہ مال جائیداد آزمائش ہے۔‘‘ مولانا اور باتیں بھی کر رہے تھے مگر یہ بات خاص میرے لیے ہی تھی ۔نوکروں کو انسان ہی نہ سمجھنا اور وراثت میں یہ چیز منتقل کرنا۔
مجھے آج صبح یاد آئی۔ ’’فالتو کا پیسہ نہیں ہے جو دوسروں پر لٹا دیں۔‘‘ گردن اکڑائے بیٹھی میں۔ ساتھ ہی لجاجت سے بات کرتی سکینہ۔ چند سو روپوں کی ہی تو بات تھی وہ بھی خیرات میں نہیں مانگ رہی تھی سکینہ۔ایڈوانس مانگ رہی تھی۔اسکی بچی کو گرمی کی وجہ سے الرجی ہوگئی تھی۔ اسکے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ سکن سپیشلسٹ کو دکھاتی۔ اسے کسی نے مشورہ دیا تھا بچی کو لان کے سوٹ دلا دے ۔سخت گرمی میں ریشمی کپڑے بچی کو زیادہ پریشان کرتے ہیں۔وہ یہی بتا رہی تھی جب ہی میرا موڈ سخت آف ہوا تھا اور میں نے کتنی سخت سنائی تھی۔’’اللہ مال دے کے بھی آزماتا ہے۔‘‘ میرے کانوں میں آواز آئی تھی ۔
میں نے سکینہ اور اسکی بچیوں کے لیے کپڑے اور ضرورت کی کچھ چیزیں خریدی تهیں۔ میں یہ کام کل پہ نہیں ٹالنا چاہ رہی تھی اسی لیے خود ہی اسکے گھر چلی گئی۔ ڈرائیور کو اسکے گھر کا پتہ تھا۔ میری 15 سال کی بیٹی میرے ساتھ ہی تھی۔ میں جانتی تھی اس کو یوں سکینہ کے گھر جانا اچھا نہیں لگا تھا۔ قصور اسکا نہیں۔ نوکروں کو انسان نہ سمجھنے کی وجہ میں ہی تھی ۔
سکینہ کے گھر جانا اور صبح کی بات پر شرمندگی کا اظہار کرنا میرے لیے بہت مشکل کام تھا مگر اللہ کو خوش کرنے کے لیے یہ بہت زیادہ بھی بڑی بات نہیں تھی۔
سکینہ کی دعائیں جو اس نے مجھے اور میرے بچوں کو دی اور نیکی کے کام کی وجہ سے خوشی جو آج میں نے پائی وہ ہر شے سے بڑھ کے ہے۔میں نے دل ہی دل میں درس قرآن ڈاٹ کام کا شکریہ ادا کیا جسکی وجہ سے میری زندگی سنور رہی تھی۔