حرفِ اول

آج کل ہر شخص امیر سے امیر ترہوناچاہتاہے۔ کوئی مفلس نہیں بنناچاہتا۔ غریب ہونے سے سب ڈرتے ہیں۔ گھبراتے ہیں ۔مگر یہ مفلسی کچھ بھی نہیں ،یہ غریبی کچھ حیثیت نہیں رکھتی اگر ہمیں اصل مفلسی اوراصل غریبی کاپتا چل جائے۔اوریہ پتا کون بتائے گا۔ ہمارے پیار ے رہبر ورہنما حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی ایسے حقائق بتلانے والے ہیں۔ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا: ’’جانتے ہو مفلس کون ہے؟‘‘

 

انہوں نے جواب دیا: ’’ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ روپیہ ہو نہ سامان۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دراصل میری اُمت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور بہت ہی مقبول عبادات) لے کر آئے گا، مگر اس نے کسی کو گولی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال ناحق کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو مارا پیٹا ہوگا، لہٰذا جس جس کو اس نے ستایا تھا ان کو ان کے حق کے حساب سے بدلے میں اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے بدلے اُتارنے سے پہلے ہی کتم ہوگئیں تو ان مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

سوچیے۔غور کیجیے! کتنا بڑا عبرتناک منظر بیان کیا گیا ہے کہ آدمی بڑی بڑی عبادات کا ذخیرہ کرنے کے بعد بھی دوزخ میں جھونک دیا جائے گا اور وجہ یہ ہوگی کہ اس نے بندوں کے حقوق کا لحاظ نہیں کیا تھا۔
اسی عبرتناک انجام سے بچانے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کے ذمے کسی مسلمان کا کوئی حق ہو تو وہ اس حق کو آج (دنیا ہی میں) معاف کرالے۔ اس سے پہلے کہ وہ (قیامت کا) دن آئے جس میں نہ تو دینار کام آسکے گا نہ درہم۔ اس دن اگر ظالم کے پاس نیکیوں کا ذخیرہ ہوا تو ان میں سے اس کے ظلم کے بقدر مظلوم کو نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیوں کا ذخیرہ نہ ہوا تو مظلوم کی برائیاں ظالم پر لاد دی جائیں گی۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن حق داروں کو ان کے حقوق (ضرور) دلوائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری (جسے سینگ والی بکری نے مارا ہوگا) سینگ والی بکری سے بدلہ لے گی۔ ( مسلم)
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکری صاحب قدس سرہٗ کے ارشادات میں تحریر ہے کہ ’’کسی کے تین پیسے بھی اپنے ذمہ رہ گئے ہوں تو اس کے بدلے پانچ سو فرض مقبول نمازیں دینا پڑیں گی۔ اس طرح تھوڑے سے پیسوں کے بدلے سارا قیمتی سرمایہ چلا جائے گا۔‘‘
اسی لیے حضرت شیخ الحدیث صاحب قدس سرہٗ نے آخر عمر میں اپنے کتب خانے کے ناظم مولانا نصیر الدین صاحب کو حکم دیا تھا کہ ’’کتب خانے سے کتابیں بیچ کر میرا قرضہ ادا کردو کہ میرے پاس تو پانچ سو مقبول نمازیں ہیں نہیں، باقی اپنی فکر تم خود کرلو۔‘‘
قارئین !ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ کسی کاکوئی حق توہمارے ذمے نہیں ۔کسی پرکوئی مالی یااخلاقی زیادتی توہم سے نہیں ہوئی ۔بھائی بہنوں پر ،دوست احباب پر، ملازموں اورنوکرانیوں پر،کسی پر بھی۔سب انسان ہیں ،سب کے حقوق ہیں۔
اگرکسی کاحق رہتاہے تو فوراً اسے اداکردیں۔معافی تلافی کرلیں اورخود کواس اصل افلاس سے بچالیں۔والسلام