شمارہ نمبر 25

Al Hadith

آج برسوں بعد شمائلہ بیگم کو  اللہ یاد آیا تھا۔دل سے اس سے پکارا تھا وہ فو را اٹھیں وضو بنایا ۔اور نماز ادا کر نے لگیں۔آنسو مصلی کو بھگوتے رہے وہ اپنے گناہوں پہ نادم تھیں۔اپنی ہر کوتاہی پہ شرمندہ اپنے رب کے حضور لوٹ چکی تھیں۔انھیں اب اپنی ہر غلطی کو سدھارنا تھا۔ اس مکان کو گھر  بنانا تھا ۔

شمائلہ بیگم کی آنکھوں کے گرد جو پٹی بندھی تھی وہ کھل چکی تھی وہ جو انھیں خود پہ ناز تھا اور غرور تھا۔ ہر جگہ خود کو متعارف کراتی نہ تھکتی تھیں آج وہ سب خاک میں مل گیا تھا۔وہ آئینے کے سامنے کھڑی بغور اپنے سراپے کو دیکھر رہی تھیں۔حسن کی دولت سے مالا مال۔ 

 

عالی تعلیم یافتہ۔ بہترین جاب۔دولت کی بہتات۔اچھا شوہر اور بچے۔سب کچھ  تھا  پاس ۔پھر بھی وہ خالی ہاتھ تھیں۔ایسا کیوں تھا۔وہ پسپا ہو چکی تھیں۔ 

زری کو بواجی دودھ میں گھول کے دوائی دے رہی تھیں۔وہ کچھ نھیں کھا پی رہی تھی۔چند دنوں میں برسوں  کی بیمار لگ رہی تھی۔ دو دن سے شمائلہ بیگم نے زری کی صورت نہیں دیکھی تھی۔وہ اس کے کمرے کی جانب بڑھیں۔ اسکی حالت نے انھیں آبدیدہ کردیا تھا۔آج پہلی بار اس کی تکلیف سے انکا دل ہل گیاتھا ورنہ اس سے پہلے وہ نوکروں کے رحم وکرم پہ چھوڑ کے مطمئن رہتیں۔بس تکلفا پوچھ لیتی تھیں۔

وہ اس کے پاس گئیں۔ شفقت سے اسکے سرپہ ہاتھ پھیرا۔پیار کیا۔زری بیدار ہوگئی۔ان کی محبت نے اسکے دل کو چھوا تھا۔وہ اسی محبت کی تو ترسی ہوئی تھی۔

فورا ان کا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔

"ممامجھے معاف کردیں۔ میں نے آپ کے ساتھ بہت بدتمیزی کی۔ میں شرمندہ ہوں!‘‘

شمائلہ بیگم زری کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے انھیں  بڑے پیار سے چوما اور بولیں۔

"بیٹا آپ کا کوئی قصور نہیں۔مجھے آپکی کسی بات کا قطعی برا نہیں لگا۔بلکہ معافی تو مجھے مانگنی چاہئے۔میں نے ہی آپ کو سمجھنے میں دیر لگادی ۔‘‘

زری اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔سسکی سی بندھ گئی۔

"ایسا مت بولیں مما آپ تو دنیا کی بیسٹ مما ہیں۔ آپ تو یہ سب ہمارے لئے ہی کررہی تھیں۔دادی جان ہم سے یہی کہتی تھیں کہ دیکھو!  تمھاری مما انتھک محنت کرتی ہیں تمھارے لئے۔تاکہ تم دونوں کو دنیا کی ہر خوشی دے سکیں۔"

جب میں آپ سے لڑی ۔بدتمیزی سے پیش آئ۔تو اس رات دادی جان میرے خواب میں نظر آئٰیں مجھ سے ناراض تھیں۔میں بہت روئی مما۔"

شمائلہ بیگم کی آنکھیں تشکر سے بھیگ گئی تھیں۔ قدرت نے کتنی اچھی سلجھی  ہوئی ساس سے نوازا تھامگر افسوس کہ وہ ان کی خدمت نہ کرسکیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برسوں بعد اس گھر کی خوشیاں لوٹ آئی تھیں جس میں خلوص تھا۔

زبیر صاحب کی اپنے بزنس ٹرپ سے  پورے دوماہ بعد واپسی ہوئی تھی۔اپنے گھر کو دیکھ کر اک پل کو انہیں یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ کسی اور کے گھر میں تو نہیں آگئے۔

گھر کا پورا نقشہ بدلہ ہوا تھا۔پورا گھر جگمگا رہاتھا۔رات کو اطلاع دے دی تھی اپنی واپسی کی۔پہلی بار انکے واپس لوٹنے پہ یوں استقبال ہوا تھا۔وہ جس قدر حیران تھے اتنے ہی خوش بھی۔

پہلی نظر انکی اپنی شریک حیات پہ پڑی۔جن کی تبدیلی نمایاں تھی۔سرپے قرینے  سے ڈوپٹہ اوڑھے دروازے پہ بچوں سمیت کھڑی انکی منتظر تھیں۔انھیں یہ سب بہت دلکش لگا۔انکی آنکھیں نم ہورہی تھیں۔

 وہ بھی والہانہ انداز سے اپنی فیملی سے ملے۔  شمائلہ بیگم نے دسترخوان لگوایا اور کھانے کے تمام لوازمات زبیر صاحب کے پسندیدہ تھے جوکہ شادی کے اتنے عرصے بعد شمائلہ بیگم نے خود تیار کئے تھے۔ سب نےنہایت اچھے ماحول  میں سے کھانا کھایا۔

زبیر صاحب بہت خوش تھے کتنے عرصے بعد۔اپنے گھر والوں سے یوں کھل کے باتیں کیں۔گھر بچوں کی کھلکھلاہٹ سے گونج رہا تھا۔ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ 

عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہوتا ہے۔ اس کے بچے اور اس کا شوہر اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ یہ بہت ذرا سی بات تھی اور شمائلہ بیگم کو کچھ دیر سے ہی سہی، سمجھ میں آ گئی تھی!