1. اگر سمندر کی تہہ کو بھی شمار کیا جائے تو دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ مائونٹ ایورسٹ نہیں، مائونٹ کیا (Kea) ہے۔ یہ پہاڑ امریکی جزیرے ہوائی میں واقع ایک آتش فشاں ہے۔ اس کی کل بلندی تقریبًا ۱۰ہزار میٹر ہے لیکن اس میں سے تقریبًا ۶ہزار میٹر بلندی پانی کے اندر ہے۔ مگر یہی بلندی مائونٹ کیا کو سب سے بلند پہاڑ بنا دیتی ہے کیونکہ مائونٹ ایورسٹ کی اونچائی ۸۸۰۰؍میٹر ہے۔
2. برطانیہ کے بعض ساحلوں کا ۵ئ۱؍میٹر علاقہ ہر سال سمندر کھا جاتا ہے۔ آپ کو علم ہوگا کہ برطانیہ کے چاروں طرف سمندر ہے۔ اگر یہ تمام ساحلوں کو ۵ئ۱میٹر کے حساب سے کھانے لگے.....
تو اگلے ۵۰؍ہزار برس میں برطانیہ کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ لیکن انگریزوں کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے بیشتر ساحل سمندر صرف ۱۰سینٹی میٹر سالانہ کے اعتبار ہی سے ہڑپ کرتا ہے۔ اگرچہ عالمی گرمائو (گلوبل وارمنگ) کے باعث سمندروں کی سطح بڑھنے سے برطانیہ کے ساحلی شہروں کو ڈوبنے کے حقیقی خطرات لاحق ہیں۔ یوں آئرلینڈ کو بھی سخت نقصان پہنچے گا جس کا چار لاکھ پینتیس ہزار ایکڑ رقبہ سمندر برد ہو جائے گا۔
3. اگر ہم اسفنجوں کو بھی زندہ شے شمار کریں تو انھیں ہی کرۂ ارض پر سب سے زیادہ طویل عمر پانے کا اعزاز حاصل ہے۔ اسفنج کی ایک قسم، دیو ہیکل بیرل (Giant Barrel) اسفنج سوا دو ہزار سال تک زندہ رہتا ہے۔ مچھلیوں میں یہ اعزاز شمالی بحراوقیانوس میں ملنے والی ایک مچھلی، آرکٹکا آئسلینڈکا (Arctica Islandica) کو حاصل ہے۔ یہ مچھلی ۴۰۰سال تک زندہ رہ سکتی ہے۔ ممالیہ جانوروں میں معمر ترین جانور ہونے کا اعزاز بوہیڈ (Bowhead) وہیل کے پاس ہے۔ یہ وہیل ۱۰۰سال سے زیادہ عرصہ زندہ رہتی ہے۔
سائنس دانوں نے تحقیق کے ذریعے دریافت کیا ہے کہ نابینا ہماری طرح خواب نہیں دیکھتے، یعنی انھیں انسان یا اشیا نظر نہیں آتی۔ تاہم وہ آواز، چھونے، ذائقے اور خوشبو سے متعلق خواب دیکھ سکتے ہیں۔ مزیدبراں جو مردوزن ۷برس کے بعد نابینا ہوں، وہ اپنے خوابوں میں شکلیں یا اشیا دیکھ سکتے ہیں۔
4. ایک بالغ انسان تقریباً ایک ہزار ارب خلیوں کا مجموعہ ہے۔ اسی طرح ہمارے جسم میں دس ارب جراثیم بھی ملتے ہیں لیکن ہر جرثومے کا وزن ایک خلیے کی نسبت ۱۰ہزار گنا کم ہے۔ یہ بھی خدائی نعمت ہے کیونکہ جراثیم بھی خلیے جتنے ہوتے تو ہم موجودہ وزن سے دس گنا زیادہ وزن رکھتے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے نشانِ انگشت (فنگر پرنٹ) ایک دفعہ مٹنے کے بعد دوبارہ نمودار ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نشانِ انگشت کی جڑیں ہماری جلد کے نیچے موجود تین تہوں تک جا پہنچتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نشانِ انگشت عموماً مجرم تک پہنچنے کا اہم ذریعہ بن جاتے ہیں۔ عمومًا مستریوں یا اینٹوں کا کام کرنے والوں کے نشانِ انگشت مٹتے اور بنتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ کام چھوڑیں، ان کے ہاتھوں میں مستقل نشان ثبت ہو جاتے ہیں۔لیکن جلد کو کسی باعث گہرائی تک نقصان پہنچے یا وہ جل جائے تو پھر نشانِ انگشت دوبارہ نہیں بنتے۔ ۱۹۳۰ء میں ایک برطانوی ڈاکو جان ڈلنگر نے سعی کی تھی کہ وہ تیزاب سے اپنے نشان مٹا ڈالے لیکن ناکام رہا۔ بچ جانے والے نشانِ انگشت ہی نے آخرکار اُسے گرفتار کرا دیا۔