قیامت تک اُمّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکی ایک امانت مسلمانوں کی گردنوں پر رہے گی جب بھی ہم کوئی آیت پڑھیں گے ہمیں ان کی اس قرآن کی اپنے گھر میں حفاظت کی فضیلت یاد آئے گی۔
اسی طرح ہم ان کے والد حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اس احسان کو نہیں بھو ل سکتے۔جنہوں نے مرتدین کے خلاف جہادمیں حفاظ کی کثرت سے شہادت کے بعد حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ قرآن کریم جمع کیا جائے.....
اور حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے اس مشورے سے اتفاق کیا اور انہوں نے حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے ذمہ لگایا اور فرمایا کہ تم ایک جوان اور سمجھدار آدمی ہو اور تم وحی لکھتے بھی رہے ہو، لہٰذا اب قرآن کے اور اق تلاش کر کے جمع کرو۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت زیدرضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا اور وہ اس مشکل کام کو کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے، فرماتے ہیں کہ جب مجھے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے حکم دیا تو میں نے قرآن کوجمع کرنا شروع کیا جو چمڑے کے ٹکڑوں، تختیوں اور پتھروں پر لکھا ہوا تھا جب حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے میں نے قرآن کو ایک الگ صحیفہ کی صورت میں لکھ لیا تھا اور وہ ان کے پاس رہا۔
پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس عظیم امانت کو حفاظت کے لئے اُمّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے سپردکردیا اور یہ نسخہ انہی کے پاس رہا حتی کہ دور عثمانی میں مصحف کی کتابت شروع ہوئی، اس کا سبب اہل عراق اور شام کے مابین قرأت کا اختلاف بنا۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے اس اختلاف کی خبرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچائی تو انہوں نے فوراً مصحف کی کتابت کی طرف توجہ فرمائی۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ مصحف ہمارے پاس بھیج دیں، ہم اس سے دوسرے مصاحف کی نقل اور تصحیح کر کے آپ کو واپس دے دیں گے اور پھر دوبارہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور مزید تین حضرات عبداللہ بن زبیر،سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم جو فصحاء قریش میں سے تھے ان کی کمیٹی بنا کر حضرت کو ان کا امیر مقرر کردیا اور ان سب کی ذمہ داری لگائی کہ وہ دوسرے نسخوں میں نقل کریں۔
جب دوسرے نسخے تیار ہوگئے تو یہ نسخے مختلف جگہوں میں بھیج دئیے گئے اور حضرت حففصہ رضی اللہ عنہا قرآن کی محافظہ کو ان کا نسخہ واپس کردیاگیا، تو ان کے اس عمل مبارک پر انہیں ثناء اور تقدم حاصل ہے اور اب قرآن کریم آخرزمانہ تک باقی رہے گا اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوگی جیسا کہ خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
اُمّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے مصحف کے بارے میں انہوں نے اپنے بھائی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکے لئے وصیت فرمائی اور جب ان کا انتقال ہوا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسے ان کے اہل خانہ کے پاس بھیج دیا پھر انہیں غسل دیا گیا۔
حضرت اُمّ المومنین حفصہ رضی اللہ عنہاکی خصوصیات میں ان کا قرآن کریم کا علم، اس کا حفظ اور احادیث رسول اللہﷺ کی روایت اور جمع کرنا بھی شامل تھا۔ صحابہ کرام اور تابعین ان کے پاس موجود حدیث نبوی سننے کے لئے مشتاق رہتے تھے۔ انہوں نے ساٹھ احادیث روایت کی ہیں، صحیحین میں ان کی چار احادیث متفق علیہ ہیں اور مسلم میں چھ احادیث منفرد ہیں۔ان سے روایت کرنے والے حضرت عبداللہ بن عمر( ان کے بھائی) ان کے صاحبزادے حمزہ بن عبداللہ ان کی زوجہ صفیہ بنت ابی عبید ، اُمّ بشرانصاریہ عبدالرحمن بن حارث وغیرہ ہیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی روایات میں سے ایک روایت وہ ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بہن حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ
’’رسول اللہﷺ فجر کے وقت مؤذن کے چپ ہونے کے بعد نمازکھڑی ہونے سے قبل دورکعت مختصر پڑھا کرتے تھے۔‘‘
رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد حضرت حفصہ اللہ عنہاخانہ نشین ہوگئیں اور حدیث و فقہ کا ایک مرکز بن گئیں۔ عہد صدیقی میں یہ عظمت اور قدرومنزل کے اونچے پر فائز تھیں۔
جب حضرت عمراللہ عنہ خلافت کے والی بنے تو حضرت حفصہ اللہ عنہا اللہ سے کئے عہد کو تھامے ہوئے تھیں انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ امیر المومنین کی صاحبزادی ہیں ۔ حضرت عمراللہ عنہ اورحضرت حفصہ اللہ عنہاکا عظیم کردار ہے جو ان کے زہد اور دنیا سے مکمل اعراض کی دلیل ہے اسی طرح ان دونوں حضرات کے دلی خلوص پر مشیر ہے، حضرت حفصہ اللہ عنہا کا اللہ تعالیٰ کی رضاء اور نبی کریمﷺ کی ہدایت کے اتباع سے تعلق پر بھی دلیل ہے اس قسم کی ایک روایت ہے کہ
حضرت عمراللہ عنہ حضرت حفصہ اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے ان کے سامنے ٹھنڈا شوربا اور روٹی لاکر رکھی اور شوربے میں زیتون کا تیل ملادیا تو حضرت عمراللہ عنہ نے فرمایا: دوسالن ایک برتن میں، میں تو مرتے دم تک نہ چکھوں گا۔
معززقارئین کے ذہن میں یہ بات نہیں آنی چاہئے کہ اُمّ المومنین حضرت حفصہ اللہ عنہازہد کی حقیقت سے ناواقف تھیں بلکہ یہ عمل انہوں نے اپنے والد کے اکرام کے لئے کیا تھا۔
اُمّ المومنین حضرت حفصہ اللہ عنہااپنے والد کی سخت زندگی کودیکھتی تھیں تو ایک دن انہوں نے کہا :اے امیر المومنین! اگر آپ اپنے کپڑوں سے کچھ نرم کپڑے پہنیں اوراس کھانے سے نرم کھانا کھائیں تو مناسب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رزق میں وسعت دی ہے اور خیر زیادہ فرمادی ہے۔
حضرت عمراللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ میں خود تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں رسول اللہﷺ کی سخت زندگی یاد نہیں۔ حضرت عمراللہ عنہ انہیں بار بار یاددلاتے رہے حتیٰ کہ حضرت حفصہ اللہ عنہاکو رلادیا اور پھر فرمایا: جہاں تک میری کوشش ہوگی میں ان دونوں حضرات کی اس سخت زندگی کی اتباع کروں گا شاید اس طرح میں ان کی آسان اور پرآسائش زندگی( جنت کی زندگی ) میں ان کا شریک بن جائوں۔ دونوں حضرات سے مرادرسول اللہﷺ اور حضرت ابو بکراللہ عنہ ہیں ۔
حضرت حفصہ اللہ عنہاکا علم اور فقہ
حضرت حفصہ اللہ عنہا علم فقہ اور تقویٰ سے معروف تھیں ، انہی صفات نے انہیں رسول اللہﷺ کے نزدیک بڑے محترم مقام پر فائز کردیا تھا ، یہ اپنے مرتبہ کو خلافت راشدہ خصوصاً اپنے والد کی خلافت میں ملحوظ رکھتی رہیں اور کئی مرتبہ ان کی آراء اور احکام فقہیہ کو معتبرمانا گیا۔ ان سوالوں میں سے سوال یہ تھا کہ عورت اپنے شوہر سے کتنے عرصہ دوررہ سکتی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ چھ یا چار مہینے۔
اُمّ المومنین حضرت حفصہ اللہ عنہابے شمار صحابہ کے لئے حدیث کے معاملے میں مرکز ومرجع تھیں، خود ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمراللہ عنہماان سے رسول اللہﷺ کے گھر میں ہونے والے اعمال کے بار ے میں معلومات حاصل کیا کرتے، مزید یہ کہ حضرت ابو بکر صدیق اللہ عنہ نے اُمّ المومنین حضرت حفصہ اللہ عنہاکو ازواج رسول اللہﷺ میں سے قرآن کے جمع کے لئے چنا۔ اس لئے کہ یہ قرآن کی حافظہ بھی تھیں اور شاید سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا انہیں چننا ان کی صفات کی وجہ سے تھا جس میں انہوں نے تقویٰ، علم اور روزے داری کو جمع کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ اپنے وقت میں پڑھنے کی ماہر بھی تھیں اور اس وقت مردوں میں سے بھی بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے تو عورتوں کو کیسے آتا۔ اس لئے حضرت اُمّ المومنین حفصہ اللہ عنہا نبی کریمﷺ کی ایک ذہین شاگردہ تھیں جنہوں نے لوگوں کو بہت سے احکام نبویہ نقل کردیئے۔