آج کا انسان صرف دولت کو خوش نصیبی سمجھتا ہے ‘ اور یہی اسکی بدنصیبی کا ثبوت ہے۔
خوش نصیبی وجود کا ظاہر نہیں بلکہ وجود کا باطن ہے۔
خوش نصیبی کسی شے کا نام نہیں سماجی مرتبے کا نام نہیں ‘ بینک بیلنس کا نام نہیں بڑے بڑے مکانوں کا نام نہیں۔۔ بلکہ خوش نصیبی صرف اپنے نصیب پہ خوش رہنے کا نام ہے۔
کسی خوش نصیب نے آج تک کوشش ترک نہیں کی لیکن یہ کوشش بامقصد ہونی چاہیے ایسی کوشش کہ زندگی بھی ہو اور موت بھی آسان ہو۔
خوش نصیبی ایک متوازن زندگی کا نام ہے ‘ نہ زندگی سے فرار اور نہ بندگی سے فرار ہو۔
خوش نصیب انسان حق کے قریب رہتا ہے۔۔ وہ ہوس اور حسرت سے آزاد ہے اور فنا کے دیس میں بقا کا مسافر ہے۔
خوش نصیب انسان اپنے آپ پر راضی ‘ اپنی زندگی پر راضی اپنے حال پر راضی اپنے حالات پر راضی اپنے خیالات پر راضی اور اپنے خدا پر راضی رہتا ہے۔
وہ انسان بدقسمت ہے جو لذت وجود کی لعنت میں گرفتار ہے اسے کسی بڑے مقصد سے تعارف نہیں بلکہ وہ صرف مال کی سنچریاں ہی بناتا ہے اور کلین بولڈ ہوکے رخصت ہوجاتا ہے۔
کتاب فطرت کا مطالعہ کریں غور سے ۔فکر کے ساتھ مشرق سے نکلنے والا سورج کتنے عظیم انقلاب کا پیغام لاتا ہے سناٹے گونجنے لگتے ہیں تاریکیاں چُھپ جاتی ہیں ۔ رنگ رنگ کے پھول کھلتے ہیں تازہ ہوا کے جھونکے پرندوں کے چہچہے اور سب سے بڑھ کر یہ عظیم شاہکار یعنی انسان خواب سے بیدار ہوتا ہے۔
اللہ کو ماننا چاہیے، اللہ کو جاننا مشکل ہے۔
ہمارے ذمے تسلیم ہے تحقیق نہیں۔
تحقیق دنیا کی کرو اور تسلیم اللہ کی !
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کو تسلیم کر لیں اور اللہ کی تحقیق کرنا شروع کر دیں۔
آج کا انسان محبت سے دور ہوتا رہا ہے ۔ ۔ ۔ آج کا انسان ہر قدم پر ایک دوراہے سے دوچار ہوتا ہے ۔۔ مشینوں نے انسان سے محبت چھین لی ہے ۔ ۔ آج کے انسان کے پاس وقت نہیں ۔ ۔ ۔ کہ وہ نکلنے اور ڈوبے والے سورج کا منظر تک بھی دیکھ سکے۔ ۔ ۔ وہ چاندنی راتوں کے حسن سےنا آشنا ہو کر رہ گیا ہے ۔ ۔ ۔ آج کا انسان دور کے سٹیلائٹ سے پیغام وصول کرنے میں مصروف ہے ۔ ۔ ۔ وہ قریب سے گزرنے والے چہرے کے پیخام کو وصول نہیں کر سکتا ۔ ۔ ۔ انسان محبت کی سائنس سمجھنا چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ ممکن نہیں زندگی صرف نیوٹن ہی نہیں ۔ ۔ ۔ زندگی ملٹن بھی ہے ۔ ۔ ۔ زندگی صرف حاصل ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ایثار بھی ہے ۔ ۔ ۔ ہرن کا گوشت الگ حقیقت ہے ۔ ۔ ۔ چشم آہوالگ مقام ہے ۔ ۔ ۔ زندگی کارخانوں کی آواز ہی نہیں ۔ ۔ ۔ احساس پرواز بھی ہے ۔ ۔ زندگی صرف“ میں “ ہی “نہیں “ ۔ ۔ ۔“زندگی“ “وہ “ بھی ہے ۔ ۔ ۔ “تو“ بھی ہے۔۔ زندگی میں صرف مشینیں ہی نہیں ۔ ۔ ۔ چہرے بھی ہیں ۔ ۔ ۔ متلاشی نگاہیں بھی۔ ۔ ۔ زندگی مادہ ہی نہیں ۔ ۔ ۔ روح بھی ہے ۔ ۔ ۔ اور سب سے بڑی بات۔۔۔ زندگی خود ہی معراج محبت بھی ہے ۔ ۔ ۔