اللہ عزوجل کی بارگاہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بڑا مرتبہ ہے ۔ جب آپ رضی اللہ عنہا پر منافقوں نے بہتان باندھا تو اس وقت اللہ جل شانہٗ نے برأت کے لیے قرآنِ کریم کی سترہ آیتیں اتار دیں ۔ جو قرآن مجید کا حصہ ہیں اور ان شآء اللہ ہمیشہ آپ کی عظمت و بزرگی اور عزت و عصمت کا اظہار کرتی رہیں گی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی اجازت سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبریلِ امین علیہ السلام نے آپ کی شبیہ لائی اور عرض کیا کہ :’’یارسول اللہ! یہ آپ کی دنیا و آخرت میں بیوی ہوں گی۔ ‘‘ اور تین مرتبہ خواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دکھائی گئی تھیں ۔ چناں چہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا:’’ اے عائشہ! تم مجھے تین مرتبہ خواب میں دکھائی گئی تھیں کہ جبریل امین تمہاری تصویر ریشم کے ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائے اور مجھ سے کہا یہ تمہاری بیوی ہے ، مَیں وہ کپڑا کھول کر دیکھتا اور کہتا کہ یہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ہو کر رہے گی۔‘‘
ان باتوں کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرما کر امت کے لیے آسانی پیدا فرمائی ۔ جس کی تفصیل آگے درج کی جائے گی ، ان شآء اللہ۔
ان روایتوں سے بارگاہِ خداوندی میں اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقام و مرتبہ سمجھ میں آتا ہے ، آپ رضی اللہ عنہا کو ایسا رتبۂ بلند جو حاصل ہوا وہ سب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل و جان سے اطاعت و فرماں برداری کی وجہ سے تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے کے سبب سے جو خدمت گزاری کی وہ امت مسلمہ کی عورتوں کے لیے مشعلِ راہ ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہونے کی حیثیت سے جو اطاعت کی وہ پوری امت کے لیے ایک سبق ہے۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ساری امت کی مقدس ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا جو مقام و مرتبہ اور عظمت و عزت تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں ایسی سیکڑوں روایتیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجۂ محترمہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت و الفت فرمایا کرتے تھے۔ بل کہ خود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حبیبہ اور محبوبہ ہونے کی گواہی دی ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی ’’ثرید‘‘ کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے۔‘‘(بخاری ومسلم و ترمذی شریف) ___(’’ثرید‘‘سالن یا شوربے وغیرہ میں روٹی کے ٹکڑے ڈال کر تیار کیے جانے والے کھا نے کو کہتے ہیں جو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب غذاؤں میں سے ایک ہے، جس کے بارے میں اطبا کا خیال ہے کہ ایسا کھانا صحت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے)
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ عرض کیا کہ : ’’ یارسول اللہ ! آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ کون پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ عائشہ (رضی اللہ عنہا)۔(بخاری و ترمذی شریف)
ایک موقع پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے بارے میں تکلیف نہ پہنچاؤ ۔ بے شک مجھ پر عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے بستر کے علاوہ کسی کے بستر میں وحی نہیں نازل ہوئی۔‘‘ (بخاری و مسلم و ترمذی شریف)
اسی طرح ایک مرتبہ اپنی پیاری بیٹی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’اے میری پیاری بیٹی ! کیا تم اس سے محبت نہیں کرو گی جس سے مَیں محبت کرتا ہوں ؟ ‘‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ کیوں نہیں ؟‘‘ (یعنی مَیں بھی اس سے ضرور محبت کروں گی جس سے آپ کو محبت ہے) ___تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سوعائشہ(رضی اللہ عنہا) سے محبت کرو۔‘‘(بخاری و مسلم و نسائی شریف)
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بڑی قدر و منزلت تھی اور آپ اُن سے بے پناہ محبت و الفت فرمایا کرتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عظمت و رفعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اخیر وقت میں مسواک چبا کر دینے والی ہماری مقدس ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں ۔ حتیٰ کہ اس دنیا سے ظاہری طور پر رخصت ہوتے ہوئے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک سر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے ہی میں ہوئی ۔