Harf e awwal

دنیا دارِ فانی ہے،ہرکوئی جانے کے لیے آیا ہے،یہاں کسی کوقرارنہیں،ایک آتا ہے اورایک جاتاہے، لاکھوں انسان روزانہ رخصت ہوتے ہیں مگر ایسا کوئی کوئی ہوتاہے جس کے جانے کا غم بھی لاکھوں کروڑوں کومحسوس ہو۔یہ سعادت انہی کونصیب ہوتی ہے جنہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف کی ہوتی ہے۔ایسی خو ش نصیب ہستیوں کاجانا ان کے لیے تو یوم عید مگرہم جیسے پس ماندگان کے لیے یوم حسرت وفغاں ہوتاہے۔اس وقت حال یہ ہے کہ اہل اللہ کی جماعت رختِ سفر باندھ کریکے بعد دیگرے کوچ کررہی ہے۔
اتوار۱۵جنوری۲۰۱۷ء کو وفاق المدارس کے صدر،شیوخ الحدیث کے استاذگرامی،جامعہ فاروقیہ کے بانی ،شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دنیا سے چلے گئے۔ ان کی رحلت سے مجھ جیسے طالب علم سے لے کر بڑے بڑے جید علماء بھی یتیم ہوگئے۔ آنکھیں اشک بار ہیں اوردل غمزدہ۔مگر حضرت مولاناسلیم اللہ خان صاحب کی مرقد کی مٹی ابھی تر تھی کہ دودن بعد اچانک حضرت مولاناشیخ عبدالحفیظ مکی بھی،جنوبی افریقہ کے سفر کے دوران دنیا سے رحلت فرما گئے۔

 

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

 یہ حضرات اکابر اب ہم سے بہت دورجاچکے ہیں۔اتنی دور کہ اب اربوں میل ناپ کر بھی ان کی ایک جھلک دیکھنا ممکن نہیں ۔ایسالگ رہاتھاکہ شاید ساری دنیا شہرِ خموشاں بن گئی ہے۔؂

ایک شمع تھی دلیلِ سحر سو خموش ہے
ان بزرگوں کے کمالات میں کیا کہوں،خا ک نشینوں کوآسمان کے تاروں کی کیا خبر۔شیخ الحدیث حضرت مولاناسلیم اللہ خان صاحب رحمہ اللہ گزشتہ دو عشروں سے برصغیرمیں دارالعلوم دیوبند کے نمائندہ علماء کی صفِ اوّل کے گنے چنے اکابر میں سے ایک تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مولاناسیدحسین احمد مدنی کے شاگرد تھے۔بڑے بڑے سفید ریش علماء ان کی جوتیاں اٹھانا سعادت تصور کرتے تھے۔
شیخ عبدالحفیظ مکی صاحب، شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنی قد س سرہٗ کے سلسلۂ سلوک واحسان کے خلیفہ مجاز اور ایسے عظیم قائد تھے جن کی مثال اس قحط الرجال کے دور میں بہت کم ہوگی ۔ نہایت وجیہہ ، باوقار اورمرعوب کن شخصیت کے حامل تھے۔ ان میں ایک عجیب کشش تھی جو ہر کسی کوگروید ہ بنالیتی تھی۔آواز میں قوت اوربیان میں ایک زور تھا۔ جب وعظ فرماتے تو دنیا مبہوت ہوجاتی۔ وقت گزرنے کاپتاہی نہیں چلتاتھا۔
وہ ایک مایہ ناز عالم ، ایک عظیم مربی وشیخ طریقت،مبلغِ اسلام،مصلح ومرشد اور ان سب کمالات کے ساتھ تحریکِ ختم نبوت کے بے باک مجاہداورقافلہ سالار تھے۔انہوں نے تبلیغ اورسلسلہ احسان وسلوک کی آبیاری کے لیے دنیا بھر کے متعدد ممالک کے دورے کیے ۔
اپنے شیخ کی کتب کوبہترین معیار پر طبع کرایا،ان کی بعض اردو کتب کوعربی کے قالب میں بھی ڈھالا۔ عالم عرب میں تصوف سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے کی بھرپور کوشش کی۔ فتنہ قادیانیت کادنیا کے آخر ی کونے تک تعاقب بھی ان کی ایسی خدمات میں سے ہے جنہیں ساری دنیا میں سراہاگیا۔ ختم نبوت انٹرنیشنل کا قیام اسی لیے عمل میں آیا اورحضرت اس کی تاسیس سے لے کرتادم زیست سربراہ رہے۔اس سلسلے میں پوری دنیا کے اسفارفرمائے اورہر جگہ اس فتنے کی بیخ کنی میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔خانقاہی سلسلے کو رواج دینے میں عمر بھر کوشش فرماتے رہے۔ ان کی جدوجہد ،توجہ اورسوزباطن سے پاک وہند اوریورپ وامریکا تک متعددخانقاہیں آباد ہوئیں اوراصلاحِ باطن کی فکر عام ہوئی۔
یہ وہ عشاق ہیں جو دنیا سے حقیقی چیز کماکر لے جارہے ہیں اورانہی جیسوں کی رخصتی پر اقبال مرحوم کو کہنا پڑا ؂
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا دے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
ان بزرگوں کی رحلت سے مجھ جیسے طالب علم سے لے کر بڑے بڑے جید علماء بھی یتیم ہوگئے۔ آنکھیں اشک بار ہیں اوردل غمزدہ۔مگرساتھ ہی اللہ کی رضاپر راضی ہیں۔ جانے والے بزرگوں نے عمر بھر اسی کی رضا کی جستجو کی ۔ان کی زندگی بھی ہمارے لیے ایک پیغام ہے اوران کاجانا بھی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کی روشن زندگیوں سے سبق لے کر ہر قدم میں ان کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے